کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 49
((أوّل جیش من أمتي یغزون مدينةَ یصر مغفور لھم)) [صحیح بخاری،کتاب الجہاد باب ۹۳، ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴] ’’میری اُمت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، اس کے لیے پروانۂ مغفرت ہے۔‘‘ منکرینِ حدیث میں سے محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔اور اس حدیث کو یزید کے پاکباز ہونے کے بارے میں قوی دلیل کے طورپر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تین عظیم واقعات رونما ہوئے اور یہ ایسے واقعات ہیں کہ جس نے یزید کی سیرت و کردار کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے : 1. سیّدناحسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں واہل بیت کاقتل عام 2. واقعہ حرہ جس میں مدینہ پر چڑھائی کی گئی اور مدینہ کو تاخت وتاراج کیا گیا اور مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ 3. خانہ کعبہ پر حملہ کیا گیا جس سے خانہ کعبہ کی بنیادیں ہل گئیں اور اُسے آگ لگ گئی۔ ناصبی حضرات نے یزید بن معاویہ کو اِن تینوں واقعات سے بری الذمہ قرار دینے کے لیے ان کے جنتی ہونے کا عقیدہ پاک و ہند میں پھیلایا اور اس بات کو ’ایک نئی تحقیق‘ کا نام دیتے ہوئے تحقیقی انداز میں پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے بہت سے محققین بھی اس سے متاثر ہوئے اور اُنہوں نے بھی اسے ایک انمول تحقیق سمجھ کر اس کی خوب تشہیر کی۔ اہل حدیث جماعت جن میں محققین کی کافی تعداد موجو دہے لیکن ان میں سے بعض لوگ بھی تحقیق کے نام سے گمراہ ہوئے اور اُنہوں نے بھی اس نئی تحقیق کی تائید کی جس سے یہ غلط نظریہ لوگوں میں عام ہوگیا کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے کی بنا پر یزید بن معاویہ جنتی ہے۔ جبکہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے اصحاب کے قتل کے علاوہ مدینہ منورہ کو جس طرح تاخت وتاراج کیا گیا اور اہل مدینہ کا جس طرح خون بہاکر مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو پامال کیا گیا، اس کی مثال پوری اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی اور نہ ہی اس طرح کا کوئی واقعہ اہل مدینہ کے ساتھ کبھی پیش آیا۔ بلکہ اہل مدینہ کوخوف زدہ کرنے اور ڈرانے والوں کے متعلق احادیث میں جس قدر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، ان سے حدیث کا ہر طالب ِعلم بخوبی