کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 48
تحقیق و تنقید ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ دامانوی
کیا یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ فوجِ مغفور لہم کا سپہ سالار تھا؟
سانحۂ کربلا اسلامی تاریخ کا اِنتہائی المناک باب ہے، اس سانحہ کے بعد یزید بن معاویہ کو لگاتار برا بھلا کہا جاتا رہا ہے۔ البتہ یزید کے جنتی/بخشے ہوئے ہونے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس بشارت کا تذکرہ کیا جاتاہے جس میں شہر قیصر کی طرف سب سے پہلے حملہ آور لشکر کو مغفور لہم ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ائمہ رحمۃ اللہ علیہ اسلاف میں سے امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر، علامہ قسطلانی اور حافظ ابن کثیررحمہم اللہ وغیرہ نے یزید بن معاویہ کو اس پہلے لشکر کا سالار قرار دیا ہے جس نے تاریخ اسلامی میں سب سے پہلے شہر قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ کیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں ان ائمہ رحمۃ اللہ علیہ اسلاف کے موقف کے برعکس بعض احادیث اور تاریخی واقعات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والا یہ لشکر پہلا نہیں ، بلکہ آخری /چھٹا تھا اور اس سے قبل سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان، عبدالرحمن بن خالد رضی اللہ عنہ بن ولید اور سفیان بن عوف کی زیر قیادت قسطنطنیہ پر حملے ہوچکے تھے؛ اس بنا پر یزید بن معاویہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت کا مستحق نہیں ٹھہرتا۔ ایک اہم نکتے پر تاریخی بحث ہونے کے ناطے اسے ’محدث‘ میں اس بنا پر شائع کیا جارہا ہے کہ یہ اس نکتہ پر جامع ومبسوط بحث ہے۔ البتہ ا س سے دلائل کی بنا پر اتفاق واختلاف کی گنجائش بلاشبہ باقی ہے جس کے لئے ’محدث‘ کے صفحات حاضر ہیں ۔یہاں یہ بنیادی سوال بھی باقی ہے کہ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ’مدینہ قیصر‘ کا مصداق کیا لازماً قسطنطنیہ ہی ہے جبکہ اس دورِ میں قیصرکا پایۂ تخت حمص تھا۔ اس موضوع پر ’محدث‘ میں ۱۰ برس قبل دو مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں اپریل ۱۹۹۹ء میں مولانا عبد الرحمن عزیز کا مضمون ’سانحۂ کربلا اور غزوئہ قسطنطنیہ کی اِمارت کا مسئلہ‘ اور ا س کے تعاقب میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہم اللہ کا مضمون ’سانحہ کربلا میں اِفراط وتفریط: بعض تسامحات‘ شمارہ اگست ۱۹۹۹ء کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ (ح م)
جہادِ قسطنطنیہ کے پہلے سپہ سالار کون تھے؟
صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بشارتوں کا ذکر ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو جہادی لشکروں کے متعلق بیان فرمائی ہیں جن میں سے ایک سمندر میں جہاد کرنے والوں کے متعلق ہے اور دوسری بشارت قسطنطنیہ پر سب سے پہلا حملہ کرنے والوں کے متعلق ہے۔ چنانچہ پہلے اس حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :