کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 45
ہے خواہ رمی نہ بھی کی ہو۔ [المحلی:۷/۱۳۹] شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے جو اُنہوں نے اپنی آخر عمر میں بلوغ المرام کی کتاب الحج کی شرح میں ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا رمیتم الجمرۃ فقد حلّ لکم کل شيئ، إلا النسائ)) [مسند احمد:۲۰۹۰، نسائی:۳۰۸۴] ’’جب تم جمرہ عقبہ کی رمی کرلو، تو تمہارے لیے سوائے عورتوں کے سب چیزیں حلال ہیں ۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا رمٰی أحدکم جمرۃ العقبة فقد حلّ لہ کل شيء إلا النسآئ)) [سنن ابوداؤد:۱۹۷۸] ’’جب تم میں سے کوئی شخص جمرہ عقبہ کی رمی کرلے تو اس کے لیے سواے عورتوں کے سب چیزیں حلال ہیں ۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ دونوں احادیث میں اگرچہ ضعف ہے، مگر بعض معاصرین جیسے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ان کو صحیح کہا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ جات ان کو تقویت دیتے ہیں ۔ [سلسلہ صحیحہ:۲۳۹] اُمّ سلمیٰ سے بھی اسی معنی کی ایک روایت منقول ہے۔ [مسند احمد؛۲۵۳۲۱،سنن ابوداؤد:۱۹۹۹] ٭ مبیت ِ منیٰ :خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی مبیت ِمنیٰ کیاہے اور فقہا کی ایک جماعت کے نزدیک جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہے اور کوئی مناسب جگہ پالیتا ہے تو اس پر تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے، یہ جمہور کا قول ہے۔ [فتح الباری:۳/۵۷۹] لیکن جس شخص کو مناسب جگہ نہ ملے سکے، اس سے مبیت ِ منیٰ کے سقوط کے بھی دلائل موجود ہیں ۔ وہ جہاں چاہے، مکہ، مزدلفہ اور عزیزیہ وغیرہ میں یہ راتیں گزار سکتا ہے۔ اس پر منی کے خیموں کی اختتام پر رات گزارنا بھی لازم نہیں ہے۔ سڑکیں ، خیموں کے درمیانی راستے، فٹ پاتھ، لیٹرینوں کے سامنے کی جگہیں اور پہاڑوں کی چوٹیاں آدمی کے لیے رات گزارنے اور اس عظیم الشان روحانی عبادت کے لیے غیر مناسب ہیں ۔اُن کی دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : استأذن العباس رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أن یبیت بمكة لیالي منٰی من أجل السقاية فأذن لہ [صحیح بخاری:۱۷۴۵، مسلم:۱۳۱۵]