کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 44
3. رمی میں نیابت کی آسانی عورتیں اورضعیف لوگ رمی کرنے کے لیے کسی غیر کو اپنا وکیل اورنائب بنا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خرجنا مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم حجاجًا، ومعنا النساء والصبیان، فأحرمنا عن الصبیان [سنن سعید بن منصور ] ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے لیے نکلے اور ہمارے ساتھ عورتیں اوربچے بھی تھے۔ پس بچوں کی طرف سے ہم نے احرام باندھے۔‘‘ (یعنی بچوں کی طرف سے حج کی نیت کی اور تلبیہ کہا) اس روایت کو امام ابن ماجہ وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے: ((فلبَّینا عن الصبیان ورمینا عنھم )) [ابن ماجہ :۳۰۳۸، ابن ابی شیبہ:۱۳۸۴۱، بیہقی:۵/۱۵۶] ’’ہم نے بچوں کی طرف سے تلبیہ کہا اور ان کی طرف سے رمی کی۔‘‘ امام ترمذی نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے: ((فکنَّا نلبي عن النساء ونرمي عن الصبیان)) [جامع ترمذی:۹۲۷، تلخیص الحبیر:۲/۲۷۰] ’’ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے تھے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔‘‘ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’میں تمام اہل علم سے یہی جانتاہوں کہ قدرت نہ رکھنے والے بچے کی جانب سے رمی کی جاسکتی ہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایساہی کیاکرتے تھے اور عطا، زہری، مالک، اسحق اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [المغنی:۳/۲۰۷] 6.تحلّل اور مبیت ِ منیٰ میں آسانی تحلّلِ اوّل رمیِ جمرات کے ساتھ ہی حاصل ہوجاتا ہے۔ جب حاجی یوم العید کو جمرات کی رمی کرلیتاہے تواس کے لیے سوائے عورتوں کے تمام چیزیں حلال ہوجاتی ہیں ۔ یہ امام مالک، ابو ثور، ابویوسف، ایک روایت میں امام احمد اورامام شافعی رحمہم اللہ کامذہب ہے۔ علقمہ، خارجہ بن زید بن ثابت اور عطا بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی مذہب صحیح ہے۔ ان شاء اللہ [المغنی:۳/۲۲۵، روضۃ الطالبین: ۳/۱۰۴، شرح العمدۃ لابن تیمیہ:۳/۵۴۰، الانصاف:۴/۴۱، مواہب الجلیل: ۳/ ۸۹] بلکہ امام ابن حزم کے نزدیک مجرد رمی کا وقت داخل ہوجانے سے تحلّلِ اوّل حاصل ہوجاتا