کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 43
((إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ ورمي الجمار لإقامة ذکر اللّٰه))[سنن دارمی :۱۷۸۰ وغیرہ موقوفاً، مسند احمد:۲۳۲۱۵، ابوداؤد:۱۸۸۸] ’’بیشک بیت اللہ کا طواف، صفاو مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی کا مقصد ذکر ِالٰہی کا قیام ہے۔‘‘ گویا اسی پورے دن کو محل ذکر بنا دیا گیا ہے اوررمی بھی اللہ کا ذکر ہے جوکسی وقت بھی کی جاسکتی ہے۔ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کاقول منقول ہے کہ جب ان سے رمی کے وقت کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: اذا رمٰی إمامک فَارْمِ [بخاری:۱۷۴۶، ابوداؤد:۱۹۷۲] ’’جب تمہارا امام رمی کرے تو تم بھی رمی کرو۔‘‘ اگر رمی کا وقت متعین ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ سائل کو ضرور اس کی صراحت کرتے۔ ٭ یوم العیدکے علاوہ دیگر ایام میں رمی کو دوسرے دن تک لیٹ کرنا: سیدنا عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ أن رسول اللّٰه أرخص لرعاء الإبل في البیتوتة خارجین عن منی، یرمون یوم النحر ثم یرمون الغد ومن بعد الغد لِیَومین ثم یرمون یوم النفر [موطا:۸۱۵، مسند احمد:۲۳۸۲۶، ابوداؤد:۱۹۷۵، ترمذی:۹۵۵، ابن ماجہ:۳۰۳۷، نسائی: ۳۰۶۹ ] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر راتیں گزارنے کی اجازت دے دی تھی کہ وہ یومِ نحر کو رمی کریں ۔پھر کل ( ۱۱تاریخ) اور کل کے بعد والے کل ( ۱۲ تاریخ) کو دو دنوں کی اکٹھی رمی کریں ۔ پھر یومِ نفر (۱۳ ذی الحجہ) کو رمی کریں ۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بکریوں کے چرواہوں کی مانند کسی کام میں مشغول شخص کے لیے رمی جمرات کو ایام تشریق میں سے آکرایک دن تک لیٹ کرنا جائز ہے۔ لیکن ۱۳ تاریخ (آخر ایام تشریق) سے لیٹ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس حالت میں رمی ادا ہوگی، قضا نہیں اور ایامِ تشریق ایک دن کی مانند ہیں ۔ یہ شافعیہ، حنابلہ، ابویوسف اور حنفیہ میں سے محمد بن الحسن کاقول ہے اور امام شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ مشغولیت کی طرح رش، مشقت اور دھینگا مشتی سے بچنے کے لیے بھی رمی کو لیٹ کیاجاسکتا ہے۔جو حج کے عظیم مقاصد میں سے ہے اور حیات ِانسانی کی رعایت رکھنا حیاتِ حیوان سے زیادہ اولیٰ ہے جیساکہ چرواہوں کو اجازت دی گئی۔ اور جانوں کی حفاظت کرنا شریعت کے مجمع علیہ پانچ مقاصد میں سے ہے۔