کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 42
شاء وا)) [دارقطنی:۲/۲۷۶، وفي أسنادہ ضعف، ولہ شواھد عن ابن عباس وابن عمر، لاتخلو من ضعیف]
’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے چرواہوں کو رات اور دن کے کسی وقت بھی جب وہ چاہیں ، کنکریاں مارنے کی رخصت دی۔‘‘
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ((وکل ذي عذر من مرضٍ أو خوفٍ علی نفسہٖ أو مالہ کالرعاۃ في ھذا، لأفھم في معناھم)) [الکافی:۱/۱۹۵]
’’مرض اور اپنی جان و مال پر خوف کھانے والے سمیت ہر معذور شخص اس رخصت کے حصول میں چرواہوں کی مانند ہے،کیونکہ یہ بھی ان کے معنی میں ہیں ۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ
(( إن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وقف في حجة الوداع بمنٰی للناس یسألونہ،فجاء ہ رجل فقال: لم أشعر فحلقتُ قبل أن أذبح؟ فقال: اذبح ولاحرج، فجاء آخر فقال: لم أشعر فنحرتُ قبل أن أرمي؟ قال: ارم ولاحرج، فما سئل النبي قدم ولا أخر إلا قال: افعل ولاحرج)) [صحیح بخاری:۸۳، مسلم:۱۳۰۶]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں لوگوں کے سوالات کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: میں نے ذبح سے پہلے ہی حلق کروا لیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذبح کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسرا آدمی آیا اور کہا: میں نے رمی سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمی کرو، کوئی حرج نہیں ہے، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی شے کی تقدیم و تاخیر کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیامگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا: کرو کوئی حرج نہیں ۔‘‘
ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کتاب و سنت، اجماع اور قیاس میں سے ایسی کوئی نص صریح بھی موجود نہیں ہے جس میں زوال سے پہلے رمی کرنے سے منع کیاگیاہو۔
اگر زوال سے پہلے رمی کرنامنع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سائلین کے جواب میں اس کی ضرور وضاحت فرمادیتی جیساکہ مشہوراُصول ہے:تأخیرالبیان عن وقت الحاجة لا یجوز
’’ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا ناجائز ہے۔‘‘
ان کے دلائل میں سے ایک دلیل قرآنِ مجید کی یہ آیت ِمبارکہ بھی ہے:
﴿وَاذْکُرُوْا اللّٰهَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ﴾ [البقرۃ:۲۰۳]
’’ان گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔‘‘
اوررمی بھی اللہ کا ذکر ہے جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ِمبارکہ ہے: