کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 41
کسی پر عیب جوئی نہیں کی ۔‘‘ 2. اوقاتِ رمی میں آسانی ٭ رات کو رمی کرنا:حاجی کے لیے رات کو رمی کرنا جائز ہے۔یہ مذہب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کاہے۔ اسی طرح ایک روایت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اورایک قول امام شافعی سے بھی منقول ہے۔ رابطہ عالم اسلامی کی مجلس تاسیس نے بھی فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی سربراہی میں یہی فتویٰ جاری کیاہے،خصوصاً جب جمرات پر سخت رش ہو۔ [الموطا۹۲۱، بدائع الصنائع:۳/۱۲۲، المحلی:۷/۱۷۶، المجموع:۸/۱۸۰، بدایۃ المجتہد:۲/۱۴۵، التاج الاکلیل مع مواہب الجلیل:۳/۱۳۳، اضواء البیان:۵/۲۹۹، مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعہ:۱۷/۳۶۸] اس کی دلیل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، فرماتے ہیں : ((سُئل النبي فقال: رمیتُ بعد ما أمسیتُ؟ فقال: لا حرج، قال: حلقت قیل أن أنحر؟ قال: لاحرج)) [صحیح بخاری:۱۷۲۳] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا۔ ایک شخص نے کہا: میں نے شام کے بعد رمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ۔ ایک نے کہا: میں نے نحر سے پہلے حلق کروالیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ۔‘‘ ٭ زوال سے پہلے رمی: حاجی کے لیے تمام دنوں میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے۔ یہ مذہب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، اور طاؤس بھی اس کے قائل ہیں ۔عطا سے ایک روایت یہی ہے۔اسی طرح محمد الباقر اور امام ابوحنیفہ سے مشہور روایت ہے۔ ابن عقیل، حنابلہ میں سے ابن جوزی اور شافعیہ میں سے رافعی بھی اسی طرف گئے ہیں ۔ معاصرین میں سے شیخ عبداللہ آلِ محمود، شیخ مصطفی زرقا اور شیخ صالح بلیہی سمیت اہل علم کی ایک جماعت اس کی قائل ہے، شیخ عبدالرحمن سعدی بھی اس کے قائل ہیں ۔ [بدایۃ المجتہد: ۱/۲۵۸، بدائع الصنائع : ۲/۱۳۷، المغنی:۵/۳۲۸، المجموع :۸/۲۶۹، فتح الباری: ۳/۵۸۰، الانصاف:۴/۴۶، مجموعہ رسائل شیخ عبداللہ آل محمود :۱/۲۲] اس سلسلے میں اُنہوں نے سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے استدلال کیاہے جس میں وہ فرماتے ہیں : ((أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم رخص للرعاء أن یرموا باللیل، وأي ساعة من النھار