کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 40
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ گرامی ہے: ((لزوال الدنیا أھون عند اللّٰه من قتل رجل مسلم)) [ترمذی:۱۳۹۵، نسائی:۲۹۸۷] ’’اللہ کے نزدیک پوری دنیا کوختم کردینا ایک مسلمان شخص کے قتل سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہواکہ حیاتِ انسانی کی حفاظت کرنا سب سے زیادہ رعایت کے لائق ہے۔ بعض لوگ بڑے فخریہ اور فاتحہ انداز میں کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہم نے تو حوض پر ہاتھ رکھ کر کنکریاں ماری ہیں ۔کیوں ، ایسا کیوں ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حوض پر ہاتھ رکھ کر کنکریاں ماری تھیں ؟ جبکہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو حوض موجود ہی نہیں تھا۔ رمی کا مقصد ظاہر ہے جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ((إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ ورمي الجمار لإقامة ذکر اللّٰه)) [دارمی موقوفاً:۱۷۸۰، مسند احمد:۲۳۲۱۵، ابوداؤد:۱۸۸۸] ’’بے شک بیت اللہ کا طواف، صفاو مروہ کی سعی اور جمرات کی رمی کا مقصد اللہ کے ذکر کو بلند کرنا ہے۔‘‘ جو شخص اپنے آپ میں مشغول ہو اور لوگوں کے طوفان میں اپنی جان بچانے میں لگا ہوا ہو وہ کیسے ذکر ِالٰہی کو قائم اوربلند کرسکتا ہے۔ اللہ کی قسم! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجاجِ کرام کی اس کثرت کو دیکھتے تو ضرور خوش ہوتے، لیکن اگر حجاجِ کرام کے موجودہ ازدحام و اضطراب اور اَموات کو دیکھتے تو اس سے ضرور ناخوش ہوتے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ واللّٰه المستعان ! بسا اوقات بلاوجہ شدت بھی وسوسہ کا سبب بن جاتی ہے اور حاجی کو شک پڑجاتاہے کہ کیا اس نے سات کنکریاں ماری ہیں یا چھ؟ اس کی کنکریاں حوض میں گری ہیں یا نہیں ؟ تردّد میں مبتلا شخص جب دو بارہ کنکریوں کے لیے جاتا ہے تو رش اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((رجعنا في الحجة مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وبعضنا یقول: رمیت لسبع حصیات، وبعضنا یقول: رمیت بست۔ فلم یعب بعضھم علی بعض)) [مسند احمد:۱۳۶۲، نسائی:۳۰۷۷، بیہقی:۵/۱۴۹، وقال الالبانی:صحیح الاسناد، فتح الباری:۳/۵۸۱] ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج سے واپس لوٹ رہے تھے، ہم میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے سات کنکریاں ماری ہیں اور کوئی کہتا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں لیکن کسی نے بھی