کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 39
1. مقام رمی میں آسانی
مقامِ رمی سے مراد وہ مخصوص جگہ ہے جو جمرات، حوض اور اس کے اردگرد کی جگہ پر مشتمل ہے۔حوض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ اس کی تعمیر کے وقت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ وہ عہد ِ اُموی میں بنایا گیا یااس کے بعد۔امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ حنفی فرماتے ہیں :
فإن رماھا من بعید، فلم تقع الحصاۃ عند الجمرۃ، فإن وقعت قریبًا منھا أجزأہ، لأن ھذا القدر ممّا لا یتأتی التحرز عنہ، خصوصًا عند کثرۃ الزحام، وان وقعت بعیدًا منھا لم یُجِزہ)) [المَبسوط:۴/۶۷]
’’اگر کسی شخص نے دور سے کنکری ماری اور وہ جمرات کونہ لگ سکی، تو اگر تو وہ جمرات کے قریب ہی گری ہے توکفایت کرجائے گی۔کیونکہ یہ ایسی تنگی ہے جس سے احتیاط نہیں ہوسکتی خصوصاً سخت رش کے وقت، اور اگر وہ دور گر جائے تو اس سے کفایت نہیں کرے گی۔‘‘
یہ ایک مفید ونفیس کلام ہے خصوصاً سخت رش کے ان دنوں میں جن میں بیسیوں نہیں سینکڑوں افراد پاؤں تلے آکر ہلاک ہوجاتے ہیں اور یہ ہم سب مسلمانوں کے لیے ایک باعث ِعار امر ہے۔ دانا، اہل علم اور دیگر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کی تلافی اور تدارک کی کوشش کریں ۔ میں نہیں جانتا کہ کتنی اَموات کے بعد ہم بیدار ہوں گے اور اس کی تلافی کرسکیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں مؤمن کی بہت بڑی شان ہے اور اس کی موت بڑی عظیم شے ہے۔ خصوصاً ایسے مبارک مقامات میں ، جہاں پرندے بھی محفوظ ہوں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
((ما أطیبک وأطیب ریحک، ما أعظمک وأعظم حرمتک، والذي نفسي محمد بیدہ لحرمة المؤمن أعظم عند اللّٰه حرمۃ منک، مالہ ودمہ فإن نظن بہ إلاخیرًا)) [ابن ماجہ:۳۹۳۲، اور اس میں نصر بن محمد بن سلیمان راوی کو ضعیف کہا گیاہے۔ابن حبان نے اس کوثقات میں ذکر کیا ہے، جبکہ دیگررواۃ ثقہ ہیں ]
’’تو کتناپاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے، تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، بے شک ایک مؤمن بندے کی حرمت اس کا مال اور خون اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ عظیم ہے۔ اور ہم مؤمن بندے کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں سوچتے۔‘‘