کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 38
طہارت کی شرط لگانے والوں کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔ جب ہم مقام سَرِف پر پہنچے تو میں حائضہ ہوگئی۔ میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میں رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز نے رُلا دیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں پسند کرتی ہوں کہ اس سال حج نہ کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید توحائضہ ہوگئی ہے۔ میں نے کہا:ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فإن ذلک شيء کتبہ اللّٰه علی بنات آدم فافعلي ما یفعل الحاج، غیر أن لا تطوفي بالبیت حتی تطھري)) [صحیح بخاری:۳۰۵، صحیح مسلم:۱۲۱۱] ’’یہ شے اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر لکھ دی ہے۔ تو حاجیوں والے سارے اعمال کر، سوائے طوافِ بیت اللہ کے ، حتیٰ کہ تو پاکیزہ ہوجائے۔‘‘ لیکن یہ حدیث طہارت کی شرط کے بارے میں نص نہیں ہے۔ اگرچہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ طہارت ہونا افضل عمل ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص بلاطہارت طواف کرلیتاہے یادورانِ طواف اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور وہ تجدید ِوضو نہیں کرتا تو اس پر کوئی شے نہیں ہے۔ خصوصاً وہ عورت جس کا حیض طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور اس کے رفقا چلے جائیں گے اور اس کو حرج لاحق ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی عورت اپنے آپ کو پوری احتیاط سے باندھ لے اور ضرورت کے تحت طواف کرلے۔ امامین کا یہ قول مذہب ِامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے موافق ہے۔ [الفتاویٰ الکبریٰ:۳/۹۵، مجموع الفتاویٰ:۲۶/۱۷۶، اعلام الموقعین:۳/۲۰] 5.رمی جمار میں وسعت و آسانی جمہور اہل علم کے نزدیک رمی کرنا واجب ہے۔کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کی تھی اور فرمایاتھا : ((خُذوا عَنّي مَنَاسِککم)) [صحیح مسلم:۱۲۹۷، نسائی:۳۰۶۲، بیہقی:۵/۱۴۵] اسی طرح جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چنے کے برابر کنکریاں چن کر لائی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أمثال ھؤلآء فارمُوا)) [مسند احمد:۱۷۵۴، نسائی:۳۰۵۷] ’’ان جیسی کنکریاں مارو۔‘‘ ٭ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایک روایت میں رمی کرنا سنت ِمؤکدہ ہے، بھی منقول ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی قول ہے۔ لیکن راجح بات یہی ہے کہ رمی کرنا واجب ہے۔ [مجموع الفتاویٰ: ۸/۱۳۸، فتح الباری:۳/۵۷۹]