کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 35
اہل علم کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک حج کی تینوں اقسام فضیلت میں برابر ہیں ۔ اور بہتر یہ ہے کہ جو قربانی ساتھ لائے، وہ حج قران کرے اور جس نے حج کے ایام میں عمرہ ادا کیا ہے اور اپنے گھر کو لوٹ گیاتو وہ حج مفرد کرے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ اس امر میں وسعت اور گنجائش ہے اور کسی پر بھی ملامت نہیں ہے، لہٰذا مفتی اور طالب ِعلم کو حجاجِ کرام کا لحاظ رکھنا چاہیے اور ((افعل ولاحرج))کو اپنا شعار بنانا چاہئے، خصوصاً جب کسی امر میں وسعت اور رخصت ہو۔ 4.ارکانِ حج میں وسعت و آسانی ارکانِ حج میں دو ارکان (وقوفِ عرفہ اور طوافِ بیت اللہ) پر اہل علم کا اتفاق ہے جب کہ دیگر ارکان کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے: 1. وقوفِ عرفہ وقوفِ عرفہ بالاجماع حج کا رکن ہے۔جیسا کہ ابن منذر، کاسانی، ابن العربی، ابن قدامہ، نووی، دبوسی اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے نقل کیاہے۔ [الاجماع از ابن منذر:۱/۵۴، الاستذکار:۴/۲۸۳، بداية المجتہد:۲/۱۴۰، المجموع:۸/۱۰۳] ٭ اس رکن کی ادائیگی ایک لمحہ کے لیے میدانِ عرفات میں ٹھہرنے سے بھی حاصل ہوجائے گی۔ حتیٰ کہ بعض اہل علم کے نزدیک اگر کوئی شخص جہاز کے ذریعہ میدانِ عرفات کی فضا سے گذر جائے تو وہی اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔ ٭ اگر کوئی شخص غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے لوٹ آتا ہے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سوا تمام ائمہ کے نزدیک اس کا وقوف ثابت ہوجائے گا۔ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علما میں سے کسی نے بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے موافقت نہیں کی۔ [الکافی فی فقہ اہل المدینہ:۱۴۳، الاستذکار:۶/۲۷] بعض اہل علم کے نزدیک اس پر دَم ہے، جب کہ اَقرب یہی ہے کہ اس پر کوئی شے نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے: عن عروۃ بن مفرس الطائي قال: أتیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بالموقف ۔یعني بالجمع۔ قلت: جئت یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم من جبل طي، أکللت مطیتی وأتعبت نفسي، واللّٰه ما ترکت من جبل إلا وقفتُ علیہ، فھل لي من