کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 33
شفقت اورمحبت کابیان ہے کہ وہ نوجوان نسل کے جذبات و احساسات کاکتنا زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ یہی وہ دانشمندی اور معرفت ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں اوربوڑھوں کے درمیان تعلقات قائم رہتے اور نسل در نسل چلتے رہتے ہیں ۔ یہ کتنی ہی عجیب بات ہے کہ ایک چیز ناجائز ہو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حالت ِاحرام میں اسے انجام دے رہے ہوں اور اس میں کوئی حرج محسوس نہ کریں ۔ ٭ عبداللہ بن حنین، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا مسور بن مخرمہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان دونوں میں اَبواء کے مقام پر مُحرم کے سر دھونے کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: مُحرم اپنا سر دھو سکتاہے۔ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: مُحرم اپناسر نہیں دھو سکتا۔چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھے (عبداللہ بن حنین) سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ میں ان سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھ آؤں ۔ جب میں ان کے پاس آیا تو میں نے ان کو غسل کرتے ہوئے پایا۔ اور ایک شخص نے کپڑے کے ساتھ ان پر پردہ کیا ہوا تھا۔ میں نے ان کو السلام علیکم کہا۔ اُنہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا:کون آیاہے؟ میں نے کہا: عبداللہ بن حنین۔ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے پاس بھیجاہے کہ آپ سے پوچھوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِاحرام میں اپنا سر کیسے دھوتے تھے؟ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کپڑے پر ہاتھ رکھا اور اس کو کھینچا۔ یہاں تک کہ ان کا سرنظر آنے لگا۔پھر اُنہوں نے ایک آدمی کو کہا: پانی ڈالو! اس نے ان کے سر پر پانی ڈالا، انہوں نے سر کے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے حرکت دی اور آگے پیچھے کیا، پھر مجھے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحیح بخاری:۱۸۴۰، مسلم:۱۲۰۵] یہ سب ایسی وسعت اور آسانی ہے جو دورانِ حج حجاج کرام کے لیے کی گئی ہے۔ ٭ ان اُمور میں سے خوشبو سونگھنا، انگوٹھی پہننا، علاج کروانا، اِزار بند پہننا اور حمام میں داخل ہونابھی ہیں : ٭ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں : قال ابن عباس: یشم المحرم الریحان وینظر في المِرأۃ و یتداوی بما یأکل الزیت والسمن ’’ محرم آدمی خوشبو سونگھ سکتاہے، آئینہ دیکھ سکتا ہے اورکھانے والے تیل اور گھی سے اپنا علاج کرسکتا ہے۔‘‘