کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 32
اس سے معلوم ہواکہ ’عدمِ قطع ‘ والے یہ الفاظ ’قطع‘ والی حدیث کے لیے ناسخ کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بعد کی ہے۔ مزید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: قطع الخفین فساد یلبسھما کما ھما’’موزوں کو کاٹنا فساد ہے، اس کوکاٹے بغیراسی حالت میں پہنا جائے گا۔‘‘ اور موزوں کو نہ کاٹنا قیاس کے بھی موافق ہے کیونکہ وہ مجبوری کی حالت میں ہی پہنے جاتے ہیں ۔ ٭ بعض اُمور ایسے ہیں جن سے لوگ بلادلیل اجتناب کرتے ہیں ، حالانکہ ان اُمور میں بھی وسعت اورگنجائش دی گئی ہے کیونکہ اصل مقصود لوگوں پر آسانی کرنا ہے۔ ان اُمور میں سے ایک حالت ِاحرام میں غسل کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔ ٭ حالانکہ صحابہ کرام میں سے ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اس اِحرام میں ایک دن میں سات مرتبہ غسل کیا ہے۔ ٭ یعلی بن اُمیہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک اونٹ کے پاس غسل کررہے تھے اور میں نے کپڑے کے ساتھ ان پر پردہ کیاہوا تھا۔اچانک عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں اپنے سر پر بھی پانی ڈال لوں ؟ میں نے کہا: امیرالمؤمنین! بہتر جانتے ہیں ۔ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! پانی بالوں کوگدلا ہی کرتاہے۔ پھر بسم اللہ پڑھ کر اپنے سر پر پانی ڈال لیا۔ [مؤطا امام مالک:۷۰۴، مسند الشافعی:۵۳۵، بیہقی:۵/۶۳] عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ تھا کہ بالوں کو پانی سے دھونا کوئی خوشبو لگانانہیں ہے بلکہ محض صفائی ہے۔ ٭ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ میں اور سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مقام جحفہ پر غوطہ خوری کامقابلہ کررہے تھے اور ہم دونوں ہی مُحرم تھے۔ [اخرجہ ابن حزم فی المُحلّٰی:۷/۱۷۴] ٭ اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ اور سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ تیراکی اور غوطہ خوری کا مقابلہ کرتے تھے حالانکہ وہ دونوں ہی احرام کی حالت میں ہوتے۔ [ایضاً] ٭ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عاصم بن عمر اور عبدالرحمن بن زیدسمندرمیں کود پڑے اور غوطہ لگانے لگے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کاسر پانی میں ڈبو دیتا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس منظر کو دیکھ رہے تھے لیکن اُنہوں نے اس کاانکار نہیں کیا۔‘‘ [بیہقی:۵/۶۲، المحلی:۷/۱۷۴] اس واقعہ میں امیرالمؤمنین سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اپنے غلاموں اور خادموں کے ساتھ