کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 31
والے کپڑے مراد لیے ہیں (یعنی وہ کپڑے اعضاے بدن کے برابر نہ سئے گئے ہوں )، اگرچہ یہ کلمہ قرآن و سنت میں اس اصطلاح میں غیر مستعمل ہے۔ بعض فقہاء نے ((الخیاط)) سے مطلقاً سلا ہواکپڑا مراد لیا ہے اور کہا ہے کہ ہر سلا ہوا کپڑا پہننا حرام ہے۔ اورعلت ((الخیاطة)) مطلقاً سلائی ہے۔ راقم کے نزدیک یہ علت غلط ہے، مثلاً احرام کی دونوں چادروں میں سے اگر کوئی چادر پھٹ جاتی ہے اور مُحرم ان کی سلائی کرکے ان کو دوبارہ پہن لیتا ہے تو بالاتفاق اس شخص پرکوئی کفارہ نہیں ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گنجائش اوروسعت رکھی ہے کہ آدمی اس حالت میں سلاہوا تہبند پہن سکتا ہے بشرطیکہ وہ شلوار کی ہیئت پرنہ سیا گیا ہو، جیسا کہ اُوپر گذرا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ شرح العُمدۃ میں فرماتے ہیں : ’’اگر شلوار کو پھاڑ کر تہبند کے قائم مقام بنا دیا جائے تو بالاتفاق تہبند کی موجودگی میں شلوار پہننا جائز ہے۔ مزیدفرماتے ہیں کہ اگر کپڑے کو سی لیا جائے لیکن اعضا کو ڈھانپنے والا نہ ہو بلکہ اس شرع کے مطابق ہو جیسے تہبند یا چادر ہوتی ہے تو اس کو پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مخالفت ِ شرع صرف اس لباس سے ہوتی ہے جواعضا کے مطابق سیا گیاہو جیسا کہ عام معروف لباس استعمال ہوتاہے۔‘‘ [۳/۱۶،۳۴] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قدامہ کاقول بھی اسی کے قریب قریب ہی ہے۔ [المجموع:۷/۲۶۴، المغنی :۳/۱۲۷] ٭ اسی طرح جوتوں کی عدم موجودگی میں موزوں کونیچے سے کاٹ کر پہننا جائز ہے۔ موزوں کونیچے سے کاٹنے کی مشروعیت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے: امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کاٹنے کی عدمِ مشروعیت مشہور ہے جبکہ جمہور کا مذہب قطع کے جواز کا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث: ((من لم یجد نعلین فلیلبس خفین)) [صحیح بخاری۱۸۴۱،صحیح مسلم:۱۱۷۸] ’’جو شخص جوتے نہ پائے، وہ موزے پہن لے۔‘‘ سے استدلال کیا ہے کیونکہ اس حدیث ِمبارکہ میں موزوں کو کاٹنے کے الفاظ موجودنہیں ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں میدانِ عرفات میں کہے تھے جب کہ ’قطع‘ والی حدیث کے الفاظ مدینہ میں کہے تھے جن کو متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں سن سکے تھے۔