کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 3
بھی تباہ وبرباد ہو جائیں تو اسے Collateral Damage سمجھ لیا جائے۔
جن پر مزعومہ دہشت گردی کرنے کا شبہ ہو، ان کے ساتھ نہ تو مذاکرات کی گنجائش پیدا کی جائے اور نہ ہی اُنہیں صفائی کا موقع دیا جائے بلکہ اُنہیں نیست ونابود کیے بغیر چین سے نہ بیٹھا جائے۔ 2.
اس حوالے سے برطانیہ کی مشہور صحافیYuonne Ridelyکا چشم کشا تبصرہ قابل غور ہے:
’’ اوبامہ بش جتنا ہی برا ہے، البتہ وہ اس سے دوگنا چالاک ہے۔ بش نے کئی سال لیے اور پھر اسے عراق پر حملہ کرنے کی جرا ت ہوئی اور اس سے حملے کے نتیجے میں تیس لاکھ سے زائد لوگ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے، ہزاروں امریکی فوجی مارے گئے اور بے شمار عراقی عوام قربان ہو گئے، اوبامہ نے اس کے بر عکس یہ سب کچھ صرف چند ماہ میں حاصل کر لیا ہے اور پاکستان پر ایک غیر قانونی جنگ مسلط کر دی ہے۔‘‘
لہٰذا یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ پاکستان اور امریکہ میں اقتدار کی تبدیلیوں سے کوئی خیر بر آمد نہیں ہو سکی بلکہ صورتِ حال روز بروز بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔ امریکہ بظاہر یہ یقین دہانیاں کراتا ہے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے لیکن عملاً امریکیوں نے ہماری خود مختاری کو گروی رکھا ہوا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اس قدر پابجولاں کیا ہوا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ اپنی آزادانہ مرضی سے نہیں کر سکتے۔ حالت یہ ہے کہ ہم رفتہ رفتہ امریکہ کی کالونی بنتے جارہے ہیں ۔ طوالت کے خوف سے صرف چند اہم اُمور کی نشاندہی پر اکتفا کیا جاتا ہے :
1. کسی بھی آزاد اور خود مختار ریاست پر ڈرون حملے در اصل اس کی خود مختاری پر حملہ تصور کیے جاتے ہیں ۔امریکہ بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے لیکن وہ ہمارے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں سے باز نہیں آرہا حالانکہ ہماری فوج ان علاقوں میں آپریشن بھی کر رہی ہے۔ ہمارے حکمران ان ڈرون حملوں پر نرم ونازک سا احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن ان کا ’سٹرٹیجک پارٹز‘ اُن کی ایک نہیں سن رہا۔ اقوامِ متحدہ بھی امریکی حکومت کو پاکستان اور افغانستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں پر متنبہ کر چکی ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔ اگست ۲۰۰۸ء سے اب تک امریکہ کی طرف سے پاکستانی عوام پر ۷۰ سے زائد ڈرون حملے کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے ۷۰۰ سے زائد