کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 29
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اذبح وَلا حرج)) ’’ذبح کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ دوسرے آدمی نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (بھول کر ) رمی کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :((اِرمِ ولاحرج)) ’’رمی کرو، کوئی حرج نہیں ۔‘‘ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی رکن کے مقدم مؤخر ہونے کے بارے میں کوئی بھی سوال نہیں کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا: ((افعل ولا حرج)) ’’کرلو، اور کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ [صحیح بخاری :۸۳،صحیح مسلم:۱۳۰۶] چنانچہ غیر منصوص اُمور میں مفتی کو بھی چاہئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت ((افعل ولا حرج))کو سامنے رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت کتب ِفقہ میں بکھری ہوئی تمام تیسیرات (آسانیوں ) کو جمع کرنے والی ہے۔ نحر کے دن اعمالِ حج میں تقدیم و تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ یہ آسانیاں غیر حج میں موجود نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص رکوع سے پہلے سجدہ کرے تو بالاتفاق اس کی نماز درست نہیں ہوگی۔ یہی معاملہ حج کی نیت کا ہے، اگر آپ یہ نیت کرلیں کہ اس سال میرا حج نفلی ہوگا اور میں اس سے تربیت حاصل کرلوں گا، جبکہ آئندہ سال فرض حج ادا کروں گا تو اس کی اس نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ بلکہ اس حج کے بارے میں یہی کہے کہ یہ فرض ہے ، سو آئندہ سال کیا جانے والا حج فرض کی بجائے نفلی بن جائے گا۔ اسی طرح وہ شخص جو کسی کی طرف سے حج کی نیت کرتاہے لیکن اس نے اپنا فریضۂ حج ادا نہیں کیاہوتا تو اس کا یہ حج اس کی نیت کے خلاف اس کی اپنی جانب سے اَداہوجائے گا۔ جیساکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا، وہ کہہ رہا تھا: لبیک عن شبرمة اے اللہ! میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں (یعنی شبرمہ کی طرف سے حج کررہاہوں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے پوچھا: شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا: میرابھائی/ قریبی رشتہ دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے اپنا حج کیا ہواہے۔ اس نے کہا: نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ [سنن ابوداؤد:۱۸۱۱، سنن ابن ماجہ:۲۹۰۳، صحت حدیث میں نظر ہے اور بہتریہی ہے کہ اسے موقوف سمجھا جائے] الغرض اپنا حج کرنے سے پہلے کسی دوسرے شخص کی جانب سے حج کرنے کے مسئلہ پر اہل