کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 28
کرتے تھے: ’’اگر رش نہ ہو تو بوسہ لے لینا، ورنہ’اللہ اکبر‘کہہ کر آگے گذر جانا۔‘‘ [’الامّ‘ از امام شافعی :۲/۲۵۸،سنن بیہقی: ۵/۸۱] ٭ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حجرِ اسود پررش ڈالنے کو ناپسند کرتے تھے، کیونکہ اس سے دوسروں کو اَذیت پہنچتی ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳۱۶۴] ٭ سعید بن عبید طائی سے مروی ہے کہ اُنہوں نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہاں سخت ازدحام ہے تو بوسہ لیے بغیر ہی آگے چل پڑے۔ پھر مقام ابراہیم پر آکر دو رکعت نماز ادا کی۔ [مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳۱۶۶] یہ رویہ فقط حجراسود کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ اسے ہر اُس جگہ اپنانا چاہئے جہاں انسان رش دیکھے اور تنگی محسوس کرے تو وہاں سے بچنا چاہئے تاکہ مزیدرش کا باعث نہ بنے۔ صرف اَجر و فضیلت پانے کے لئے بار بار حج کرنے کی بجائے صدقہ دینا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ ائمہ اسلاف کے اقوال گزر چکے ہیں ، البتہ جس شخص کے لیے حج کرنا اولیٰ ہو مثلاً وہ کسی رشتہ دار عورت یا اپنی بیوی کامحرم بن کر جارہا ہو یا اپنے بوڑھے والد کا سہارا بن کر جارہا ہو یا حجاج کرام کی خدمت کی ذمہ داری نبھانے جارہا ہو تو اس کے لئے حج کرنا زیادہ اولیٰ ہے۔ 3.(( اِفعَـل وَلاَ حَــرَج )) حج کے عظیم الشان مقاصد میں سے ایک مقصد ترکِ زینت پر لوگوں کی تربیت کرنا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ حج لوگ احرام کے لباس: ایک چادر اور تہبند کے علاوہ زیب و زینت سے مرصع اور پُرتکلف لباس سے بچتے ہیں ۔ اس میں بندے کو فقر مطلق کی یاد دہانی ہے اور اللہ کی طرف تیاری کی دعوت بھی ہے۔ گویا انسان دنیا سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح وہ تنہا اس دنیا میں داخل ہوا تھا۔ شاید اسی لیے حالت ِاحرام میں خوشبو لگانے، ناخن اور بال کاٹنے،جسمانی خواہشات، جماع کرنے اور اس کے اسباب کو استعمال کرنے سے بھی منع کردیا گیاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حج میں ایسی گنجائشیں اور آسانیاں رکھ دی گئی ہیں جو دیگر عبادات میں نہیں ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے میدانِ منیٰ میں ٹھہر گئے۔ ایک آدمی نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے بھول کر قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈوالیا ہے؟