کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 27
٭ ابن ہانی اسی مسئلہ میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا : ’’ وہ ذی روح مخلوقِ خداپر اس کو خرچ کردے۔‘‘ ٭ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ’کتاب الزہد‘ میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، اُنہوں نے کہا: ’’آدمی کہتا ہے: میں حج کرتاہوں ،میں حج کرتاہوں ، حالانکہ اس نے حج کرلیاہوتا ہے۔ اس کوچاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے، پریشان پر صدقہ کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘‘ ٭ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب صفة الصفوۃ میں لکھا ہے : إن الصدقة أفضل من الحج ومن الجھاد ’’یقینا صدقہ، حج اور جہاد سے افضل ہے۔‘‘ ٭ وکیع سے مروی ہے، وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں ، اُنہوں نے ابومسکین سے نقل کیا ہے کہ وہ باربار حج کرنے والے شخص کے لیے صدقہ کرنے کو افضل قرار دیتے تھے۔ [الفروع:۲/۴۹۷] امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ کابھی یہی قول ہے۔ ٭ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ’الفتاویٰ الکبریٰ‘ میں فرماتے ہیں : ’’استطاعت والے پر حج کرنا غیر واجب صدقہ سے افضل ہے۔ لیکن اگر آدمی کے رشتہ دار محتاج اور ضرورت مند ہوں تو ان پر خرچ کرنا حج کرنے سے افضل ہے۔‘‘ [۵/۳۸۲] ٭ موجودہ حالات میں بار بار نفلی حج کرنا فریضہ حج ادا کرنے والوں کے لیے ازدحام، عدمِ تنظیم اور ہلاکت سمیت متعد مشکلات کا سبب بنتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ’’اے عمر رضی اللہ عنہ ! تو ایک مضبوط اور قوی آدمی ہے۔ حجر اسود پر رش نہ کر کیونکہ اس سے تو کمزوروں کو تکلیف پہنچائے گا۔اگر گنجائش موجود ہو تو حجراَسود کا بوسہ لے لیا کر، ورنہ اس کے سامنے سے گذرتے وقت ’لا الہ الا اﷲ‘ اور’ اللہ اکبر‘ کہہ کر گذر جا۔ ‘‘ [مسنداحمد:۱۹۰، بیہقی:۵/ ۸۰] ٭ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تو حجرِاسود پر رش پائے تو وہاں پررُکنے کی بجائے فورا گذر جا۔ ‘‘ [مصنف عبدالرزاق:۸۹۰۸، بیہقی:۵/۸۰] ٭ منبوذ بن ابو سلیمان سے مروی ہے، وہ اپنی ماں سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی ماں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھیں ، ان کے پاس ان کی باندی آئی اور ان سے کہا: ’’اے اُمّ المؤمنین! میں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور دو یا تین مرتبہ حجرِ اسود کابوسہ لیا ہے۔ اس کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ تجھے اَجر نہ دے، تو تو مردوں کو دھکیلتی رہی ہوگی، تو ’اللہ اکبر‘ کہہ کر کیوں نہ گذر گئی۔‘‘ [مسندالشافعی:۴۹۵،سنن بیہقی: ۵/۸۱] ٭ عائشہ رضی اللہ عنہ بنت ِسعدبن ابی وقاص سے مروی ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ میرے والد ہمیں کہا