کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 26
2. تکرارِ حج اس امر سے ہر ذی شعور آدمی بخوبی واقف ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے صرف ایک فیصد لوگ حج کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں تو میدانِ عرفات میں وقوف کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک جا پہنچے گی جن کا یہ عبادت بیک وقت بجا لانا محال ہے۔ اب صرف اعشاریہ ایک فیصد لوگ فریضہ حج ادا کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک ہزار لوگوں میں سے صرف ایک آدمی حج کرتاہے۔ گویا پاکستان کی جمیع آبادی ۱۵ کروڑ میں سے ہرشخص اگر حج کا ارادہ کرے تو ان کو حج کرنے کے لیے ہزارسال کاانتظار کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں ہر سال شدید ازدحام کی وجہ سے سینکڑوں حجاجِ کرام موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس عظیم الشان فریضے کی روحانیت اور تقدس مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ ایمانی جوش و جذبہ اس مبارک سفر کے لیے انسان کو برانگیختہ کرتا رہتاہے، تو مسلمانوں کو دوسری طرف اس امر سے بھی غافل نہیں ہوناچاہئے کہ ہرسال نفلی حج کرنے والا شخص پہلی بارفریضہ حج اداکرنے والے لوگوں کے لیے ازدحام اور مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ جن میں عورتیں ، بوڑھے اور کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور اس شخص کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی عادت پر ڈٹا رہتا ہے اور اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیاہے کہ میرا اکیلے آدمی کا وجود کون سا ضرر کا باعث بن سکتا ہے یا میرے نہ جانے سے کون سا بڑا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے جس میں احساسِ ذمہ داری کافقدان ہے۔فرض کریں کہ اگر ہرشخص یہی سوچ لے کر وہاں جا پہنچے توکئی ملین اشخاص وہاں جمع ہوجائیں گے اور سخت ترین ازدحام ہوجائے گا۔ منیٰ،عرفات، مزدلفہ اور بیت اللہ کی حدود ان کے لیے تنگ پڑ جائیں گی۔ ان حالات میں انسان کوچاہئے کہ وہ نفلی حج کرنے کی بجائے اتنی ہی رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کردے۔ خصوصاً آفات زدہ علاقوں ، فاقہ کشوں اورجنگ زدہ علاقوں میں اس رقم کو تقسیم کردیا جائے۔ ان حالات میں صدقہ کرنا افضل عمل ہے جیساکہ اَسلاف کے اقوال درج ذیل ہیں : ٭ ابن مفلح ’الفروع‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیاکہ نفلی حج کیا جائے یاصلہ رحمی کی جائے؟ اُنہوں نے جواب دیا: ’’اگر رشتہ دار محتاج ہوں توصلہ رحمی کرنا زیادہ افضل ہے۔‘‘