کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 25
نفلی عبادت اللہ کے تقرب کا ذریعہ ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰهَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ﴾ [البقرۃ: ۱۵۸] ’’اور جو شخص برضا ورغبت کوئی بھلائی کاکام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔‘‘ ٭ فرضی نماز اور روزے کے علاوہ بعض نفلی عمل ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں ۔ عام طور پر ایسے نوافل سے دوسروں کو نہ تو کوئی ضرر پہنچتا ہے اور نہ ہی وہ اس سے براہِ راست مستفید ہوتے ہیں ۔ ٭ جبکہ بعض نوافل ایسے ہیں جو لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں اور ان کی نیکی اوربھلائی متعدی ہوتی ہے جیسے صدقہ اور کسی پراحسان۔ انسان جتنا زیادہ ان نوافل کو اداکرتا ہے لوگوں کو اتنا ہی زیادہ نفع اور فائدہ پہنچتا ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے: ((لا إسراف في الخیر))’’خیر کے کاموں میں کوئی اِسراف نہیں ہے۔‘‘ اگر چہ یہ جملہ بھی مطلق نہیں ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو محدود کردیا ہے۔ چنانچہ سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب دو تہائی مال صدقہ کرنے کی وصیت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان اپنے ورثا کو غنی چھوڑ جائے تواس سے یہ بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑ جائے اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں ۔‘‘ [صحیح بخاری:۱۲۹۵، مسلم:۱۶۲۸] صحیحین میں جنگ ِتبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین اشخاص کاقصہ مذکورہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تو سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں توبہ قبول ہونے کی خوشی میں اپناجمیع مال اللہ کے لیے صدقہ کردیتاہوں تو ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أمسک علیک بعض مالک فھو خیرلک)) [صحیح بخاری:۲۷۵۸، مسلم:۲۷۶۹] ’’کچھ مال اپنے پاس رکھ لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔’’ ٭ تیسری قسم کے نوافل ایسے ہیں جو آدمی کی ذات کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہوتے بلکہ مشاعر مقدسہ کی تنگی کے سبب دوسرے بھی متاثرہوتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں نفلی حج اور عمرہ مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں ،کیونکہ حج یا رمضان کے عمرے کاوقت محدود ہے جو مقدم و مؤخر نہیں ہوسکتا اور حاجیوں کی روز افزوں کثرت سے مزید تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔