کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 24
حج کا مقصد نیکی ہے اور یہ نیکی تیز چلنے، رش ڈالنے اور دھکم پیل کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کا حصول سکون اور اطمینان کے ساتھ چلنے سے ہی ممکن ہے۔ کیا حجاجِ کرام رمیِ جمار کے وقت اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہیں کہ وہ رمی جمار کرتے وقت سکون و اطمینان کے ساتھ چلیں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کریں ؟ لیکن امر واقعہ اس کے خلاف ہے کہ رمی جمار کے وقت خوب دھینگا مشتی اور دھکم پیل کا مظاہرہ ہوتا ہے جس سے کئی اَفراد قدموں تلے روندے جاتے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ ان اجتماعی عبادات میں درحقیقت خلوص وجذبہ کے علاوہ دوسروں کے حقوق کی رعایت، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت ، جاہل سے درگذر اور کمزوروں کے ساتھ تعاون کی تربیت بھی مقصود ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿اَلْحَجُّ أشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِیْ الْحَجِّ﴾ [البقرۃ:۱۹۷] ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں ۔جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی حرکت، بدعملی اور لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ حالت ِاحرام میں انسان بعض جائز دنیوی خواہشات سے بھی دور رہتا ہے اور شہوت کو مہمیز دینے والے اُمور سے خصوصی طور پربچتا ہے۔ حج و دیگر عبادات میں مشروع ہرطریقہ بندوں کی دنیوی و اُخروی مصلحت کے لیے ہے۔ اسی لیے حج کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ﴾ [الحج:۲۸] ’’تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لیے یہاں رکھے گئے ہیں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جس کو گھسیٹ کر لایاجارہا تھا کیونکہ اس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ان اللّٰه عن تعذیب ھٰذا نفسہ لغني)) [صحیح بخاری:۱۸۶۵، صحیح مسلم:۱۶۴۲] ’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے مستغنی ہے۔‘‘ حج کی شرائط پر پورا اُترنے والے ہر مسلمان زندگی میں صرف ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔حالانکہ حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے اور حج کے وجوب کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتاہے۔ ایک سے زائد بارحج کرنا نفلی عبادت تو ہے لیکن