کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 23
یہی وجہ ہے کہ جب کسی قبیلے کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی زکوٰۃ لے کرآتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے یہ دعا فرماتے : ((اللّٰھم صلِّ علی آل فلان)) [صحیح بخاری:۱۴۹۸،مسلم :۱۷۸] ’’اے اللہ! آلِ فلاں پر رحمت فرما۔‘‘ روزے کی حکمت سے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [البقرۃ:۱۸۳] ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘ قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰهُ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَائُ ھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾ [الحج:۳۷] ’’نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ 1. منافع حج اسی طرح حج کے مقاصد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لِیَذْکُرُوْا اسْمَ اللّٰهِ﴾ [الحج:۳۴] ’’تاکہ اللہ کا نام ذکر کریں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ مقاصد ِحج بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں : ((إنما جعل الطواف بالبیت وبین الصفا والمروۃ ورمی الجمار لإقامة ذکر اللّٰه)) [سنن دارمی:۱۷۸۰، مسند احمد:۲۳۲۱۵،سنن ابوداؤد:۱۸۸۲] ’’بے شک طوافِ بیت اللہ، سعی ٔصفا و مروہ اور رمی ٔجمار کا مقصد ذکر ِالٰہی کوقائم کرنا ہے۔‘‘ بسا اوقات مؤمن بندہ ذکر ِالٰہی کے قیام کے لیے طواف کرتا ہے پھر تیز تیز چلنا اور کندھوں کو مٹکا مٹکا کر دیگر مسلمانوں کو اَذیت دیتے ہوئے دورانِ طواف اپنی جسمانی قوت کا اظہار کرناشروع کردیتا ہے۔ اسی طرح آج کل زیادہ رش ہونے کی وجہ سے طواف وغیرہ میں زیادہ محتاط چلنے کی ضرورت ہوتی ہے ،لیکن بعض لوگ تو اس امر پر فخر کرتے نظر آتے ہیں کہ میں نے گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرلیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اطمینان اور سکون سے چلنا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ سے واپس لوٹتے تو سکون اور اطمینان کے ساتھ چلتے، اور یوں فرماتے : ((علیکم بالسكينة… فإن البر لیس بالإیضاع)) [صحیح بخاری:۱۶۷۱] ’’سکون کو لازم پکڑو، سکون کو لازم پکڑو، بے شک تیز چلنے میں نیکی نہیں ہے۔‘‘