کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 22
آمدہ بعض مسائل و مشکلات کاحل ہے۔بالخصوص ایسے مسائل جن کے بارے میں حجاج کرام عموماً اُلجھن اور مشکلات کاشکار رہتے ہیں ۔ پہلے اس موضوع کو مختلف رسائل و جرائد میں شائع کیاگیا تھا،جس کو علماے کرام نے سراہا اور اس کی تائید کی۔ لہٰذا نفع کی اُمید رکھتے ہوئے اب اس کو مستقل کتابچہ کی صورت شائع کیا جارہا ہے، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ اس کو دنیا و آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے۔ (مؤلف) اللہ ربّ العزت نے عبادات کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد اور حکمتیں بھی بیان کی ہیں لیکن لمبا عرصہ گذر جانے اور لوگوں کے دل سخت ہوجانے کی وجہ سے اب عبادات کو رسوم و رواج بنالیا گیاہے۔ لوگ عبادات کو ان کے اصل مقاصد سے ہٹ کر ظاہری شکل وصورت میں ادا کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں خلوص کی بجائے عبادات کے اوقات اور تفصیلات ہی نقش ہوچکی ہیں کہ فلاں فلاں عبادات کو ان ان اوقات میں فلاں طریقے پر اَدا کرنا ہی مقصودِ حقیقی ہے۔ عبادات کو رسوم و رواج سمجھ لینے کے بعد وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ لوگ ان میں اپنی طرف سے کمی و زیادتی کرنا شروع کردیتے ہیں اورنئی نئی بدعات گھڑ لیتے ہیں کیونکہ ان کے اَذہان اصل روح اور مقصد سے ہٹ کر اس کی ظاہری شکل و صورت پرمرتکز ہوچکے ہوتے ہیں ۔ عبادات کی روح میں نے جب قرآن مجید کی ان آیاتِ مبارکہ کو جمع کیا، جن میں عبادات کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد اور حکمتوں کوبھی بیان کیا گیاہے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عبادت کی کوئی نہ کوئی حکمت اورمقصد ضرور بیان کیاہے۔مثلاً اُمّ العبادات نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ﴾ [العنکبوت:۴۵] ’’بے شک نماز بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ﴾ [التوبہ:۱۰۳] ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! تم ان کے اَموال میں سے صدقہ لے کر اُنہیں پاک کرو اور اُنہیں بڑھاؤ اور ان کے حق میں دُعاے رحمت کرو۔‘‘