کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 20
کے بارے میں معلومات رکھنے والے ان کو جانتے ہوتے ہیں ۔ ان کی ظاہری حالت سے ان کی اندرونی حالت کا علم ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے غلے کے اوپر والے حصے کو دیکھ کر اس کی اندرونی حالت کا پتا چل جاتا ہے۔ اگر اس میں غرر تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ معمولی ہو گا جو مفادِ عامہ جو کہ لوگو ں کے لیے ناگزیر ہے، کی وجہ سے ناقابل گرفت ہے۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’اگر ان کو ایک ہی مرتبہ نکال کر بیچنے کی شرط عائد کر دی جاتی تو اس میں مشقت ہو تی اور لوگوں کے اَموال خراب ہوتے جبکہ شریعت کا یہ تقاضا نہیں ہے۔ اور اگر یہ پابندی لگا دی جاتی کہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں بیچی جائے یعنی جتنی نکالی جائے، اتنی ہی فروخت کی جائے تو اس میں بھی تنگی اور حرج ہوتا، اس سے اصحابِ مال اور مشتری کے مفادات کامعطل ہونا کسی سے مخفی نہیں ہے۔‘‘ [ایضاً: ص۸۲۱] 4. سپرد گی ممکن ہو فروخت کی جانے والی چیز کے متعلق چوتھا حکم یہ ہے کہ فروخت کنندہ اس کو خریدار کے حوالے کرسکتاہو۔ جو چیز خریدار کے سپرد نہ کی جا سکتی ہو، اس کو بیچنا جائز نہیں کیونکہ مشتری سے قیمت وصول پانے کے بعد چیز اس کے حوالے نہ کرنا صریح زیادتی ہے، چنانچہ رسی تڑا کر بھاگے ہوئے جانور کو فروخت کرنا صحیح نہیں ، تاآنکہ مالک اس پر قابو نہ پا لے۔ایسے ہی اس پلاٹ اور مکان کو بھی بیچنا درست نہیں جس پر کسی نے ناجائز قبضہ کررکھاہو حتیٰ کہ اسے ناجائز قابض سے واگزار کرا لیا جائے کیونکہ ان صورتوں میں سپرد گی ممکن نہیں ہے، ہاں اگر غصب شدہ پلاٹ یا مکان غاصب کو ہی فروخت کیا جائے یا کسی ایسے شخص کو جو غاصب سے قبضہ لینے کی طاقت رکھتا ہو تو پھر جائز ہے۔ تاہم قبضہ نہ ملنے کی صورت میں خریدار کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہو گا،چنانچہ مشہور حنبلی فقیہ علامہ بہوتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فإن باعہ من غاصبہ أو قادر علی أخذہ صحَّ لعدم الغرر فإن عجز بعد فلہ الفسخ [ الروض المربع:۲۷۹] ’’اگر غصب شدہ چیزغاصب کو یا ایسے شخص کو بیچے جو قبضہ لے سکتا ہو تو یہ بیع صحیح ہو گی کیونکہ اب غرر نہیں رہا، اوراگر بعد میں قبضہ نہ لے سکا تو اس کو منسوخ کرنے کا حق حاصل ہو گا۔‘‘