کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 14
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحق رحمۃ اللہ علیہ شراب ساز کو انگور بیچنے مکروہ سمجھتے ہیں ۔‘‘ [فتح الباری: ج۴/ ص۴۰۸] حرام کاروبارکے لیے جگہ فروخت کرنے کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ معاہدئہ بیع کے وقت فروخت کنندہ کے علم میں ہو کہ خریدار اس کو حرام مقاصد کے لیے استعمال کرے گا لیکن اگرمعاہدے کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہو اور بعد اَزاں وہ اس کا غلط استعمال شروع کر دے تو اس صورت میں فروخت کنندہ پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ شرعاًفروخت کنندہ پر مشتری سے خریداری کا مقصد معلوم کرنے کی پابندی نہیں ہے۔ 11.اُدھار معاملات لکھ لیا کریں کاروباری طبقہ کو اکثراُدھار خریدو فروخت کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ بعض اوقات فریقین باہمی اعتماد اور خوشگوار تعلقات کی بنا پر ابتدا میں کسی تحریر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے مگربعدمیں بے اعتمادی اورغلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور نوبت لڑائی، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک جا پہنچتی ہے یا زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے خریدار کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کوئی چیز خریدی تھی یا نہیں ،اگر خریدی تھی تو کس قیمت پر۔ اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ خریدار اچانک فوت ہوجائے اور تحریری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ورثا ادائیگی سے انکار کر دیں ۔ اس موقع پر اگر کسی فریق کے پاس تحریر موجود ہو تو یہ شہادت کا کام دے سکتی ہے۔ اس لیے قرآنِ حکیم نے یہ تلقین کی ہے کہ اُدھار خرید وفروخت کی دستاویز لکھ لی جائے تا کہ بعد میں تنازعات اور اختلافات پیدا نہ ہوں اور اگر ہوں تو ان سے نمٹناآسان ہو۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَی اَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہُ﴾ [البقرۃ:۲۸۲] ’’اے ایمان والو!جب تم مدتِ معین تک اُدھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘ اگرچہ اہل علم کی اصطلاح میں یہ حکم واجب نہیں لیکن اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ اس حکم کو معمولی سمجھ کر غفلت برتتے ہیں ، وہ بسا اوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ لہٰذااگر قرآن کی اس گراں قدر تعلیم پر عمل