کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 13
لہٰذایہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔ ٭ گناہ میں معاون نہ بنیں ہرمسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت واستعدادکی حد تک بدی اور فحاشی کے انسداد کے لیے جد وجہد کرے۔ایک مؤمن کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ مال ودولت کی خاطر برائی میں ممدومعاون بنے۔ قرآن نے دنیامیں زندگی گزارنے کاایک زریں اُصول یہ بتایا ہے : ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ﴾ [المائدۃ :۲] ’’نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہو۔ گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کے معاون نہ بنو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک وہ سخت عذاب والا ہے۔‘‘ اس حکم کا اطلاق معاملات پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اگر کسی فروخت کنندہ کو یہ یقین ہو کہ خریدارمجھ سے خریدی گئی چیزحرام مقصدکے لیے استعما ل کرے گا تو اس کے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہو گا۔حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ حَبَسَ الْعِنَبَ أَیَّامَ الْقِطَافِ حَتَّی یَبِیعَہُ مِمَّنْ یَتَّخِذُہُ خَمْرًا فَقَدْ تَقَحَّمَ النَّارَ عَلَی بَصِیرَۃٍ)) [بلوغ المرام وحَسَّنَ ابن حجر اسنادہ ] ’’جس نے انگور کو اُتارنے کے زمانہ میں روکے رکھے تاکہ وہ شراب ساز کو فروخت کرے تو وہ جانتے بوجھتے جہنم میں جا گھسا۔ ‘‘ صحیح بخاری میں مذکورہے : وکَرِہَ عِمْرانُ بنُ حُصَینِ بَیْعَہُ في الْفِتْنَةِ ’’عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فتنہ (مسلمانوں کی باہمی لڑائی) کے دور میں اسلحہ کی فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ‘‘[باب بیع السلاح في الفتنة وغیرھا] شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خریدار کے ساتھ تعاون ہے۔ یہ تب ہے جب صورت حال واضح نہ ہو لیکن جب باغی کا علم ہو پھر بر حق جماعت کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ابن بطال کہتے ہیں کہ فتنہ کے زمانہ میں اسلحہ کی فروخت اس لیے ممنوع ہے کہ یہ گناہ پر تعاون کی شکل ہے، اسی لیے