کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 12
کنندہ کو یہ پیشکش کی جا سکتی ہے کہ تم یہ چیز اسے نہ دو بلکہ میں اس سے زیادہ میں خریدتا ہوں ۔ یہ دونوں طریقے اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں کیونکہ اس طرح لوگوں کے درمیان نفرت و عدوات پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضِ)) [صحیح مسلم: کتاب البر والصلة، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ] ’’کوئی شخص کسی کے سودے پر سودا نہ کرے۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: ((لاَ یَسُمِ الْمُسْلِمُ عَلَی سَوْمِ أَخِیہ)) [صحیح مسلم: تحریم بیع الرجل علی بیع اخیہ] ’’مسلمان اپنے بھائی کی قیمت پر قیمت نہ لگائے۔ ‘‘ اگرچہ نیلامی (بولی)میں بھی ایک شخص دوسرے شخص کی طرف سے لگائی گئی قیمت پر قیمت لگاتا ہے مگر یہ صورت جائز ہے۔ ٭ ایک تو اس لیے کہ نیلامی کا جواز خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کمبل اور پیالہ فروخت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کمبل اور پیالہ کو ن خریدے گا۔ ایک شخص نے کہا میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک درہم سے زائد کون دے گا۔ ایک شخص نے دو درہم دیئے تو آپ نے وہ دونوں چیزیں اس کو بیچ دی۔‘‘ [سنن ترمذی:کتاب البیوع، باب ماجاء في بیع من یزید وقال ھٰذا حدیث حسن] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس کے حق میں یوں عنوان قائم کیا ہے۔ بابُ بَیْعِ الْمُزایَدَۃِ ’’نیلامی کے جواز میں ‘‘ ٭ دوسرا اس لیے کہ قیمت پر قیمت لگانا تب ناجائز ہے جب فروخت کنندہ پہلے شخص کو فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کر چکا ہو یعنی سودا طے پاچکا ہو،لیکن اگر اس نے ابھی تک اپنی آمادگی کا اظہار نہ کیاہو بلکہ صرف خواہشمندوں کو قیمت لگانے کی دعوت دے رہا ہو تو پھر یہ جائز ہے۔ نیلامی میں چونکہ فروخت کنندہ کی دعوت پرقیمت لگائی جا رہی ہوتی ہے