کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 11
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((رَحِمَ اللّٰهُ رَجُلاً سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَی، وَإِذَا اقْتَضَی)) [صحیح بخاری: کتاب البیوع: باب السھولة و السماحة في الشراء و البیع] ’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو بیچتے، خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی کرتا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے : ((أفضل المؤمنین رجل سمح البیع، سمح الشرائ، سمح القضائ، سمح الاقتضائ)) [طبرانی اوسط:ج۷/ص۲۹۷] ’’بہترین مؤمن وہ ہے جو خرید وفروخت، قرض کی ادائیگی اور مطالبہ میں نرم ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘ ٭بعض اوقات چیز خریدنے کے بعد انسان کواس کی ضرورت نہیں رہتی یا وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی، اس صورت میں اگرچہ شریعت دوسرے فریق کو مجبور نہیں کرتی کہ وہ ضرور واپس کرے لیکن اگر وہ ایسا کر لے تو یہ بہت بڑی نیکی ہو گی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَہُ اللّٰهُ عَثْرَتَہُ)) [سنن ابی داؤد باب في فضل الإقالة] ’’جو مسلمان کا سودا واپس کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکی غلطیوں سے در گذر فرمائے گا۔ ‘‘ ہمارے ہاں بعض دکان داروں نے یہ عبارت لکھ کرآویزاں کی ہوتی ہے : ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا ۔‘‘ یہ رویہ نہ تواس جذبہ اخوت و محبت کے مطابق ہے جس کی تعلیم اِسلام اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے اور نہ ہی کاروباری لحاظ سے فائدہ مند،کیونکہ جب کسی تاجر کی یہ شہرت ہو جائے کہ وہ خریدی گئی چیز واپس یا تبدیل نہیں کرتاتو لوگ اس کی دکان پر جانے سے کتراتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کاروبار سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔ 9. سودے پر سودا کرنا ممنوع ہے دو پارٹیوں کے درمیان معاملہ طے پا جانے کے بعد تیسر ے فریق کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی پارٹی کو ورغلا کر سودا خراب کرنے کی کوشش کرے۔ نہ تو خریدار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ سودا ختم کر دیں میں تمہیں یہی چیز اس سے کم قیمت پرمہیا کردیتا ہوں اور نہ ہی فروخت