کتاب: محدث شمارہ 334 - صفحہ 10
چنانچہ حدیث کی مستند اور اعلیٰ ترین کتاب صحیح بخاری میں ایک عنوان یوں قائم کیاگیا ہے: بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ ’’خرید وفروخت میں قسمیں کھانا مکروہ ہیں ۔‘‘ شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’یہ کراہت ِمطلق ہے۔ اگر قسم جھوٹی ہو گی تو مکروہ تحریمی اور اگر سچی ہو گی تو مکروہ تنزیہی ہو گی۔ ‘‘ [فتح الباری: ج۴/ص۴۰۰] یعنی سچی قسم سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے۔ [عمدۃ القاری: ج۸/ ص۳۵۵] ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ عادت برکت کھو دینے کا باعث ہے کیونکہ دنیاوی مفاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے بابرکت نام کا استعمال غیر مناسب ہے اوربالآخر جب لوگ ایسے تاجر کی عادت سے واقف ہو جاتے ہیں تو پھر اس کی قسموں پریقین نہیں کرتے۔ یوں اس کی دکانداری خراب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے قسمیں کھا کر مال بیچنے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( الْحَلِفُ مُنَفِّقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مُمْحِقَةٌ لِلْبَرَكَةِ)) [صحیح بخاری باب یمحق اللّٰه الربا] ’’قسم تجارت کو تو چلاتی ہے مگر برکت کو ختم کر دیتی ہے۔‘‘ حضرت ابو قتادۃ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ((إِیَّاکُمْ وَکَثْرَۃَ الْحَلِفِ فِي الْبَیْعِ فَإِنَّہُ یُنَفِّقُ ثُمَّ یَمْحَقُ)) ’’بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے بچو کیونکہ یہ چیز فروخت تو کر دیتی ہے، مگر اس کی برکت ختم کر دیتی ہے۔‘[صحیح مسلم: باب النہي عن الحلف في البیع] 8. نرم رویہ اختیار کریں کاروباری معاملات اور لین دین میں دوسرے فریق کورعایت اور سہولت دینا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام یہ تلقین کرتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ فراخ دلی، نرمی اورسیر چشمی کا مظاہرہ کریں ۔ بنئے کی طرح سخت اور بے لچک رویہ اختیار نہ کریں ۔