کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 99
کر دیا اور مجلس اقبال کی سابقہ رونقیں پھر لوٹ آئیں ۔ عبدالجبار شاکر کے بعد اب اس خلا کو کون پر کرے گا۔ دور و نزدیک فوری طور پر ایسی کوئی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ عبدالجبار شاکر کی طبیعت میں سادگی کا وہ عالم تھا کہ اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی۔ ہمارے ہاں کئی برس سے پابندی کے ساتھ درسِ قرآن جاری ہے: ہفتہ میں صرف ایک بار جمعہ کی شب مغرب سے عشاء کی نماز تک۔ علمی زوال کا عالم کہ یہ ذمہ داری میرے سپرد ہے۔ ایک پارے کے اختتام پر کسی اہل علم کو دعوت دی جاتی ہے جو اپنے وعظ سے مستفیض فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ عبدالجبار شاکر کو دعوت دی گئی۔ فوراً قبول فرمائی، بروقت تشریف لائے۔ درس دیا اور حاضرین سے خطاب کیا۔ کچھ ادبی دوست ملنے آگئے تو محفل دیر تک جمی۔ علمی، تحقیقی اور تجسس بھری باتیں بھی ہوئیں، ادبی چٹکلے بھی چلے۔ معروف ادیب و اُستاد ڈاکٹر انور محمود نے ان کی گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاکر صاحب کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان میں گویا ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے لذتِ سماعت کا احساس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔آرام کے لیے غریب خانہ پر انتظام تھا۔ اے سی والے کمرے میں بستر لگایا۔ فرمانے لگے: طاہر بھائی! ایسے تکلّفات میں نے نہیں پالے۔ تمہارے مکان پر چھت ہے نا۔ میں نے عرض کی: شاکر بغیر چھت کے کونسا مکان ہوتا ہے؟ ہنس دیئے، بس تو میں چھت پر سوؤں گا۔ میں نے اے سی والے کمرے میں سونے پر اصرار کیا، انکار ہی آیا۔ میں نے آخری دلیل دی، کہا: چھت پر مچھر کاٹیں گے۔ بولے:حقیر مخلوق ہے،اپنے حصہ کا رزق ہمارے جسم سے لے لیں، کیا حرج ہے۔ میں لاجواب ہوا، چھت پر لے گیا، چارپائی بچھائی۔ میں نے کہا: رکیے ابھی بستر لاتا ہوں ۔ کہنے لگے: ضرورت ہی نہیں ۔ بولے: وہ شعر نہیں پڑھا ع وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے قدرت کی طرف سے سرہانا جسم کا حصہ ہے، اس لیے حاجت ہی نہیں ۔ میں بھاگم بھاگ نیچے آیا، بستر اُٹھایا، اوپر چھت پر پہنچا تو شاکر صاحب سنت کے مطابق دائیں کروٹ سر کے نیچے بازو رکھے گہری نیند سو چکے تھے۔ میں نے بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ عبدالجبار شاکر سے میری ٹیلی فون پر گفتگو ان کے انتقال سے ہفتہ عشرہ قبل ہوئی۔ وہ مجھے