کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 98
حضرات ابلاغ کے لیے ٹھیٹھ پنجابی کو ذریعہ بنایا کرتے حتیٰ کہ سٹیج پر بھی پنجابی ہی بولتے ہیں ۔ اگر کبھی اُنہیں تکلّفاً اُردو میں گفتگو کرنی پڑ جائے تو زبان لڑکھڑاتی اور سننے والے کو کذب کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن عبدالجبار شاکر کے ہاں یہ کیفیت نہ تھی۔ اُردو زبان اس شستہ انداز میں روانی سے بولتے کہ سننے والے کو اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا۔ ان کی تقریر میں الفاظ کی ندرت بھی ہوتی اور اندازِ بیان میں شہد کی سی شیرینی پائی جاتی تھی کہ سننے والا مسحور ہو جاتا۔ کان لذتِ کلام سے اس درجہ مسحور ہوتے کہ سننے والا اپنی کم اور ان کی زیادہ سننے پر مجبور ہوجاتا۔ بلکہ ان کی ہی سنتے رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب ’مرکزیہ مجلس اقبال‘کا قیام تقریباً پون صدی قبل ہی عمل میں آگیا تھا۔ تشکیل پاکستان کے بعد ہر سال یوم اقبال کی تقریب پابندی سے منعقد ہوتی ہے جس میں اہل فکر و اہل دانش اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔ اقبال پسند جوش و جذبے سے اس تقریب میں شریک ہوتے ہیں ۔ شعلہ بار خطیب، آتش فشاں مقرر اور ہفت روزہ چٹان کے ایڈیٹر جناب آغا شورش کاشمیری مرحوم عمر بھر مرکزیہ مجلس اقبال کے سیکرٹری رہے۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ہمیشہ وہی ادا کیا کرتے تھے۔ ان کی شخصیت جادو اثر رکھتی تھی۔ الفاظ کا چناؤ اور اندازِ خطاب دلکش نہیں بلکہ مسحور کن ہوتا تھا۔ اپنی جولانی طبع سے پوری تقریب میں رنگ بھر دیتے تھے۔ موقع و محل کے مطابق اشعار کا انتخاب پیش کرنے کا انداز تقریب کی رونق کو دوبالا کردیتا۔ وہ اپنی تقریر سے انسانوں کے بپھرے طوفان کو جامد کرنے اور جامد لوگوں کا جمود توڑ کر بپھرے ہوئے طوفان میں تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ حاضرین دم بخود ہو کر آغا شورش کی باتیں سنا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد مرکزیہ مجلس اقبال کی تقاریب میں وہ رنگ نہ رہا۔ چند برس یہ تشنگی رہی۔ ہر شخص آغا صاحب کو یاد کیا کرتا تھا۔ چند برس اسی طرح گزر گئے، جانے انتخاب کس کا تھا۔ تاہم نقابت کی ذمہ داری عبدالجبار شاکر کے سپرد ہوئی۔ اُنہوں نے کوثر و تسنیم میں دھلی، دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ کی مجموعی شستہ اور سریلی اُردو سے حاضرین کو دنگ کر دیا۔ عبدالجبار نے صحیح معنوں میں آغا شورش کی یاد تازہ کی اور نقابت میں آغا جی کی نیابت کا حق ادا