کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 97
طالب علم شباب کے ساتھ عناب کے رسیا ہونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ قانون کے شباب تو کسی قانون کی پروا بھی نہیں کرتے اور بہت سی حدود پھلانگ جاتے ہیں ۔ کیونکہ اُنہیں کسی عتاب کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ قانون کو اپنا غلام اور عدالت کو باندی خیال کرتے ہیں ۔
وولنر ہال کے ساتھ ہی لاء کالج کا ہاسٹل بھی ہے۔ وہاں مذکور اَمثلہ کی فراوانی ہوتی ہے۔ مشرقی علوم کے بعض طلبا بھی بہک جاتے ہیں لیکن بہت کم۔ عبدالجبار شاکر بھی وولنرہاسٹل کے باسی اور لاء کالج ہاسٹل کے قریبی تھے۔ ان میں شباب اور جمال بھی تھا اور سخن وری کا کمال بھی۔ لیکن ان کے ہاں شباب کے ساتھ عناب نہیں، بلکہ ’اناب الیٰ ﷲ‘ کی کیفیت تھی۔ ان کی راتیں بھی جاگتی تھیں لیکن رجوع الی الرحمن کے ساتھ … ان کے نینوں میں بھی مستی ہوتی تھی لیکن دعاے نیم شبی کی… ان کی آنکھیں بھی اشکبار ہوتیں لیکن کسی فراق میں نہیں بلکہ عتاب الٰہی اور خشیت و تقویٰ کی کیفیت سے … وہ بھی راتوں کو لاہور کی سڑکوں پر گھومتے تھے لیکن آوارہ نہیں بلکہ دینی لٹریچر کو تقسیم کرتے ہوئے۔
وہ خود تحریکی ذہن کے مالک تھے۔ اس لیے اُنہیں تاریخ میں انہی شخصیات سے رغبت تھی جنہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین اعلائے کلمتہ اﷲ قرار دے لیا تھا۔ وہ کلمتہ اﷲ کو بلند کرتے ہوئے دنیا میں زندہ رہے اور اس کام کو کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کا نصب العین ہی یہ تھاکہ اعلائے کلمتہ اﷲ کرتے کرتے مرنا ہے اور یہی کام مرتے مرتے کرنا ہے۔ اس حوالے سے زندہ شخصیات میں وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر تھے۔ ان کے اقوال کو گفتگو میں بیان کرتے۔اس قلبی موانست کے باوجود وہ وسیع المشرب تھے۔ اہل حدیث ہونے کے ساتھ ساتھ بریلوی اور دیوبندی اکابر کا انتہائی احترام سے نام لیتے۔ اگر کسی شخصیت کے تذکرہ میں سیاسی وابستگی کے حوالے سے ذمّ کا پہلو سامنے آتا تو انتہائی ادب سے اس انداز میں ذکرکرتے کہ مخاطب ڈھیر بھی ہوتا اور زخم کا اندازہ بھی نہ ہو پاتا۔ وار کا احساس کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا۔ لیکن اس وقت تک چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اس وقت تک مخاطب جواب دینے کی صلاحیت ہی سے عاری ہوتا۔
ان کا تعلق شیخوپورہ سے تھا اور اہل حدیث گھرانہ کے فرد تھے۔ یہاں کے اہل حدیث