کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 96
ہوئے۔ عبدالجبار شاکر بولے: طاہر بھائی! چھوڑیئے، آپ عقل کی باتیں کرتے ہیں ۔ عشق و محبت کی باتوں میں عقل پیچھے رہ جاتی ہے۔ عقل عشق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ عشق سر پھوڑ لیتا ہے، عقل تکتی اور غور کرتی رہتی ہے۔ بلا کے مقرر تھے۔کالجوں یونیورسٹیوں میں منعقد ہونے والے ہر مباحثہ میں شریک ہوتے اور ہمیشہ میلہ لوٹ کر ہی واپس لوٹتے۔ تالیوں کی گونج میں سٹیج پر آتے اور تالیوں کی گونج ہی میں سٹیج سے اُترتے تھے۔ لیکن پہلی تالیاں تقریر اور ان کے انداز پر نہیں بلکہ ان کی ظاہری ہیئت کو دیکھ کر بجائی جاتی تھیں ۔ جن میں طنز، ہاؤ ہو اور شور و غوغا ہوتا تھا۔ لیکن جب وہ زبان کھولتے، موضوع پر گفتگو کرتے تو پورے مجمع پرسناٹا طاری ہو جاتا۔ جادوکی کیفیت محسوس ہوتی۔ آخر میں یہ جملہ ضرور کہتے: جنابِ صدر! میں انہی دلائل و براہین کی روشنی میں آج کی قرارداد کی مخالفت / موافقت کرتا ہوں اور سٹیج چھوڑتے۔ اس وقت بھی تالیاں بجتیں لیکن یہ تالیاں سٹیج پر آنے کی تالیوں سے مختلف ہوتیں ۔ ان میں تحسین و تعریف کا غلبہ ہوتاتھا۔ کسی مباحثے میں کسی بھی بڑے سے بڑے مقرر طالب ِعلم کی عبدالجبار شاکر کے سامنے دال نہ گلتی۔ یہ شروع شروع کی بات ہے: میں نے پوچھا، شاکر صاحب! آپ کو جب کسی مباحثے میں سٹیج پر بلایا جاتا ہے تو آپ کے تاثرات کیا ہوتے ہیں ۔ سٹیج کے خوف سے اعصاب پر کچھ اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟ بولے، سٹیج نام کی چیز میرے لیے اعصاب شکن نہیں ۔ سٹیج کا خوف ان کے لیے کبھی پریشان کن نہیں ہوا۔ ایک روز باتوں ہی باتوں میں خود ہی کہنے لگے : جب میرا نام تقریر کے لیے پکارا جاتا ہے اور میں اُٹھ کر سٹیج پر جاتا ہوں تو طلبا میری ظاہری حالت، قمیص، شلوار، ٹوپی اور داڑھی کو دیکھ کر خوب ہنستے اور آوازے بلند کرتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں ۔ اسی ہاؤ ہو میں میری تقریر شروع ہوتی ہے۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد تمام ہنسنے والے سنجیدہ بلکہ انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور مباحثہ کا فیصلہ میرے حق میں ہو جاتا ہے۔ زمانہ طالب ِعلمی عجیب بھی ہوتا ہے اور غریب بھی۔ خصوصاً یونیورسٹی سطح کا دور تو زندگی کے لیے عجائب و غرائب میں اور بھی اضافہ کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں شباب و عناب کی رنگینیاں ہوتی ہی ہیں اور ہوسٹل کی زندگی اس کو دوآتشہ کرنے میں ممد و معاون بنتی ہے۔ ایسے عالم میں بعض