کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 95
وہ پیدائشی اہل حدیث تھے: پوری لمبی داڑھی، ٹخنوں سے اونچی شلوار پہنتے۔ کبھی ننگے سر نہ رہتے۔ زمانۂ طالب علمی میں بھی شلوار ٹخنوں سے اوپر رہی۔ سر کا حلق کروایا اور چہرہ کو داڑھی سے مزین کیا۔
ستر کی دہائی میں کالجوں یونیورسٹیوں میں انگریزی لباس کا چلن تھا۔ مشرقی لباس پہننے والے کو دیگر طلبا اچھوت سمجھتے یا وہ خود ہی کو اچھوت خیال کرتے۔ عبدالجبار شاکر کو ہم نے ہمیشہ مشرقی لباس ہی میں دیکھا۔ وہ میرے روم میٹ تھے۔ ایک برس ہم ایک ہی کمرے میں رہے۔ اُنہوں نے کبھی پتلون نہ پہنی لیکن اس کے باوجود مجھے پتلون پہنے دیکھتے تو ناصحانہ انداز میں مسکراتے۔ ہمیشہ تعریف کی، یہ حکمت سے بھرپور مبلّغانہ طریقہ تھا جس میں ﴿اُدْعُ اِلی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالحِكْمَةِ﴾(النحل:۱۲۵)کا پہلو کار فرما تھا۔ اپنے لباس اور اپنی ظاہری ہیئت پر میں نے ان کو کبھی احساسِ کمتری کا شکار نہ پایا۔
اہل حدیث ہونے کے ناتے وہ جہر اور رفع یدین کے قائل تھے۔ صرف نماز ہی میں نہیں بلکہ سٹیج پر تقریر کے دوران بھی خوب جہر سے کام لیتے اور رفع یدین بھی کرتے تھے۔ یہ عادت باہم گفتگو میں بھی غالب رہتی۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے مخالف بہت جلد قائل ہوجاتا۔ پکے وہابی تھے، البتہ مزاج میں سختی اور کھردرے پن کا نام نہ تھا۔
دوستوں کے ساتھ انتہائی شفیق، محبت کا مورد، سخت سے سخت بات بھی اس انداز میں کہہ گزرتے جیسے شوگر کوٹڈ گولی۔ مخاطب کو احساس ہی نہ ہوتا، لیکن اہل حدیث مسلک پر پختہ کار ہونے کے باوجود دوسروں کی بات توجہ سے سنتے۔ اپنی سے ہٹتے نہ تھے لیکن ہر ایک کی سنتے۔ اچھی مانتے، غلط کا دلیل سے توڑ لانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تعلقات بریلوی، دیوبندی اور شیعہ مسلک کے لوگوں کے ساتھ بھی تھے۔ اس معاملے میں ان کا عمل قرآنی تعلیم ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی﴾(المائدۃ:۲)کا آئینہ دار تھا۔ وہ مخاطب کی بات میں وزن دیکھتے تو تقویٰ کی کسوٹی پر پرکھتے اور جذبۂ بر کے تحت تعاون میں قطعاً گریز نہ کرتے تھے۔
ایک روز دوستوں میں دورانِ گفتگو مسلکی بحث چل نکلی۔ بریلوی مکتب فکر کی بعض باتیں زیر تبصرہ تھیں ۔ کچھ اس مسلک کے ساتھی بھی تھے۔ وہ دفاعی کوشش کرتے رہے لیکن لاجواب