کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 94
خاصے متاثر تھے۔ اگرچہ وہ باقاعدہ اس تحریک کا حصہ تو نہ بنے لیکن فکری اعتبار سے وہ فکر ِ مودودی کے بہت بہت قریب تھے۔ نجی گفتگو میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے، جس میں عقیدت مندی غالب ہوتی تھی اور مولانا کی کتب بھی جمع کرتے تھے اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔ یہ تحریکی ذہن ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ تاریخ میں گزری ان شخصیات سے خاصے متاثر تھے جن کا حوالہ تبلیغی اور تحریکی رہا ہے۔ مثلاً سید جمال الدین افغانی، حسن البنا، سید قطب، شاہ ولی اﷲ، شاہ عبدالقادر وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد جو اَثمار ہائے لذیذہ اولاد کی شکل میں اﷲ نے اُنہیں عطا فرمائے ان کے نام بھی اُنہوں نے انہی عظیم شخصیات کے نام پر ہی رکھے۔ بڑے بیٹے کا نام جمال الدین افغانی، چھوٹے کا نام رفیع الدین۔ جب کوئی ان سے بیٹوں کے نام پوچھتا تو بڑی محبت سے نسبت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کرتے تھے۔ ان بڑی شخصیات کا نام بتاتے ہوئے ان کے چہرہ پر ایک محبت و عقیدت کی کیفیت کے آثار نمایاں ہوا کرتے تھے۔ وہ محرک اور متحرک زندگی کے قائل تھے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ان کے لیے پاپ سے کم نہ تھا۔ سست روی ان کا مذہب نہ تھی۔ کچھ نہ کچھ کرنا، کرتے رہنا اور دوسروں کو کچھ نہ کچھ کرنے کی ترغیب دینا، زندگی بھر معمول رہا۔ تیز چلتے، دوسروں کو تیز روی اختیار کرنے کی ترغیب دیتے۔ ایسے افراد کا شمار شاید مشکل ہو جو ان کی تحریک سے قلمکار بنے اور نام کمایا، زندگی کی یہی روش اُنہوں نے اپنی اولاد میں بھی منتقل کی۔ آپ کو اِنہی لوگوں سے پیار تھا جو تاریخ میں متحرک رہے اور متحرک زندگی گزار کر رخصت ہوئے۔ شگفتگی ان کی طبیعت کا حصہ تھی۔ جس سے ملتے مسکراتے ملتے۔ دیکھتے ہی کھل جاتے اور کھل کر باتیں کرتے۔ خود بھی مسکراتے، دوسرے کو بھی کسی نہ کسی حوالہ سے مسکرانے پر مجبور کرتے۔ مخاطب خواہ کتنا ہی سنجیدہ مزاج ہو، ایسی بات کرتے کہ سننے والے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ ان کا یہ عمل رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل میں ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دوسرے سے مسکراتے چہرہ سے ملنا بھی نیکی ہے۔‘‘(ترمذی:۱۹۷۰)