کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 93
لیکن میں شاکر ہوں تو میری بیوی مجھ سے زیادہ شاکرہ ہے، کتابوں کی قدردان ہے۔ اس نے میرے ذوق کی تسکین کے لیے اپنا زیور بیچ کر رقم میرے ہاتھ میں دی اور کہا: اپنی مرضی کی کتب خرید لیں اور لائبریری کی زینت بنا دیں، مجھے خوشی ہوگی۔ وہ ایک مرتبہ مجھے ملنے فیصل آباد آئے۔ میں نے خوشی کا اظہار کیا، بٹھایا، باتیں ہوئیں ۔ باتوں کے ساتھ ساتھ الماری میں رکھی کتابوں کو دیکھتے رہے بلکہ کتابوں کو کھولتے رہے۔ ان سے کھیلتے رہے۔ کھیلنے کا لفظ محض مترادفات یا لفظی تصنع کے لیے نہیں، اظہارِ حقیقت کے طور پر ہے۔کتاب دیکھتے ہی پہلے ان کا چہرہ کھلتا ہے۔ پھر وہ کتاب کھولتے اور پھر اس سے کھیلتے تھے۔ کھیلنے کا لفظ یہاں بھی لفظی تصنع نہیں بلکہ کتاب کو دیکھ کر ان کی ظاہری کیفیت اور چہرہ پر پھیلتی بشاشت کے حوالے سے ہے۔ ان کے چہرے پر بکھرتی خوشی بالکل ایسی ہی ہوتی جس طرح بچے ہر نئے کھلونے کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ رخصت ہونے لگے تو فرمائش کی کہ اس ذخیرہ کتاب سے بس ایک اپنی پسند کی کتاب کا ہدیہ چاہتا ہوں ۔ اس سوال میں اتنی اپنائیت تھی کہ میں انکار نہ کرسکا۔ اگلے روز اس واقعہ کا ذکر ایک مشترک دوست سے کیا۔ کہنے لگے: عبدالجبار شاکر کی سب سے بڑی کمزوری کتاب ہے۔ کتاب دیکھ کر مچل جاتا ہے۔ اس معاملہ میں ضد کی حد تک حریص ہے، لیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ ’بیت الحکمت‘ کے نام سے ان کی قائم کردہ لائبریری ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ ان کی زندگی میں بھی تحقیقی کام کرنے والے طلباء و اساتذہ یہاں سے علمی فیض حاصل کیا کرتے تھے۔ کتابوں کے سمندر میں غواصی کرکے علمی موتی تلاش کرتے اور اپنی تحقیق کے ذریعے ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کیا کرتے تھے۔ بلکہ بڑے بڑے قلمکار، کالم نگار بجا طور پر یہ کہتے کہ جو کتاب کہیں سے نہ ملے وہ عبدالجبار شاکر کے بیت الحکمت سے ضرور مل جاتی ہے۔ …………٭ ………… عبدالجبار شاکر شعور و بلوغ کے آغاز ہی سے تحریکی ذہن کے حامل تھے۔ غالباً یہ ذہن اُنہیں ورثہ میں ملا تھا، جس کی آبیاری پاکستان میں موجود مختلف دینی تحریکات نے کی۔ زمانہ طالب علمی میں وہ جماعت ِاسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر سے متاثر تھے، بلکہ