کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 92
لاہور لایا ہی نہیں ۔ وہ تو آبائی گھر ہی میں رہتے ہیں ۔ میں نے بے تکلفی سے کہا: بھلے آدمی لوگ گھر اہل خانہ کے لیے تعمیر کرتے ہیں، تم نے اگر اہل خانہ کو شیخوپورہ ہی میں چھوڑنا تھا تو گھر کس کے لیے تعمیر کیا۔ وہ فرمانے لگے: میں نے گھر کتابوں کے لیے تعمیر کیا ہے۔ ایک سادہ سا پلنگ، اس پر چادر بچھی تھی، اس پر مجھے لیٹنے اور آرام کرنے کا حکم دیا۔ میں تعمیل حکم میں لیٹ گیا۔ عبدالجبار شاکر خود ایک مصلیٰ بچھا کر فرش پر لیٹے۔ کچھ باتیں ہوتی رہیں، کچھ زمانۂ طالب علمی کے وقت ہوسٹل میں مقیم ساتھیوں کا تذکرہ آیا، کچھ سیاست ِدوراں کی باتیں بھی ہوئیں ۔ لیکن ہر بات کی تان کسی نہ کسی حوالے سے کتاب اور مطالعہ کتاب، یا کسی کتاب پر گفتگو سے شروع ہوئی اور اسی موضوع پر ختم ہوئی۔ انہی باتوں کے دوران انہوں نے ایک دلچسپ قصہ بھی سنایا۔ کہنے لگے: شیخوپورہ میں کسی وجہ سے مکان تبدیل کرنا تھا۔ میں نے اپنی ساری کتب کو گتے کے ڈبوں میں پیک کیااور رسیوں سے باندھا۔ ایک ریڑھی والے کو بلایا، اس سے پیسے طے کئے۔ ریڑھی والے نے سامان منتقل کرنا شروع کیا۔ وہ دو تین چکر لگا چکا، ہر چکر میں کتابوں کے بنڈل، وہ کتب سے بھرے ہوئے گتے کے بنڈل اٹھاتا رہا۔ چوتھے چکر میں حیرت سے پوچھنے لگا، مولانا! آپ کے گھر میں کچھ گھریلو سامان، کوئی برتن وغیرہ بھی ہے یا آپ نے ساری ردّی ہی جمع کر رکھی ہے۔ اس واقعہ سے ہم دونوں نے خوب لذت لی۔ جواب آں غزل کے طور پر میں نے بھی اپنا واقعہ بتایا۔ ہمارے گھر ایک بوڑھی خاتون عرصہ سے کام کرتی تھیں ۔ بہت خاموش طبع، کسی محلے دار نے اس خاتون سے ایک روز پوچھا، یہ قاری صاحب کیا کرتے ہیں ۔ بولی: میں تو گھر میں کام کرتی ہوں ۔ میری عادت نہیں کہ میں کسی کے گھریلو معاملات میں دخل دوں ۔ یہ اچھی بات نہیں، میں تو خاموشی سے آتی ہوں، کام کرتی ہوں، چلی جاتی ہوں ۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ ان کا ردّی کا کاروبار ہے۔ ایک پورا کمرہ ردی سے بھرا پڑا ہے۔ اُنہوں نے واقعہ سنا اور لذت لیتے رہے۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا: شاکر! تمہاری بیوی تو تم سے بہت نالاں رہتی ہو گی۔ سارے پیسے کتابوں پر ہی خرچ کر دیتے ہو۔ بولے، طاہر بھائی! شاید تمہاری بات درست ہو