کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 91
عبدالجبار شاکر ابھی سرکاری ملازمت سے ریٹائر نہ ہوئے تھے کہ اُنہیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے ایک خط موصول ہوا کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد تشریف لے آئیں اور یہاں اپنی صلاحیتوں سے یونیورسٹی میں رنگ بھریں ۔ اس خط کا تذکرہ عبدالجبار شاکر مرحوم نے سب سے پہلے مجھ سے کیا اور فرمانے لگے : میں بھائی سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ ہمیشہ مجھے طالب علمی زمانہ سے تعلق کے پیش نظر طاہر بھائی کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: بظاہر توا س میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے۔ آپ اپنے گھریلو حالات دیکھ کر قبولیت کا فیصلہ کر لیں ۔ فرمانے لگے: میرے ہمراہ گھر چلیں، وہاں مزید مشورہ کرتے ہیں ۔ میں نے حامی بھر لی اور ہم ان کے گھر چلے گئے۔ یہ گھر ملتان روڈ پر منصورہ کے بالمقابل واقع ہے۔ ان کے کتابی ذہن کا تو میں ہاسٹل کے مشترکہ قیام کے زمانہ ہی سے قائل تھا لیکن ان کے گھر آکر اس حوالہ سے مزید اضافہ ہوا۔ یہ گھر تقریباً چودہ مرلہ جگہ پر محیط ہے جو تین چار منزلہ ہے۔ اور ہر منزل پر چاروں طرف الماریاں ہیں جن میں کتابیں بلکہ کتابیں ہی کتابیں رکھی ہیں ۔ دیواروں کے درمیان فرش پر بھی الماریاں قطاروں میں کھڑی تھیں ۔ ان الماریوں میں بھی کتابیں ہی تھیں ۔ اُنہوں نے اپنے ذوق کے مطابق ترتیب کچھ اس طرح قائم کی کہ اوپر کی منزل ساری قرآن، تفاسیر اور متعلقاتِ قرآن کتابوں کے لیے۔ دوسری منزل حدیث اور متعلقاتِ حدیث کی کتب کے لیے، تیسری منزل میں فقہی کتب اور چوتھی منزل ادبی کتابوں کے لیے مخصوص تھی۔ وہ مجھے چاروں منزلوں میں لے گئے اور بڑی محبت سے اپنی کتب دکھاتے رہے۔ خوش ہوتے رہے اور خوش کرتے رہے۔ میں نے پوچھا: رہائش کس منزل میں ہے؟ فرمایا: ان چاروں منزلوں ہی میں ہے۔ کام کرتے کرتے جہاں نیند آجاتی ہے، سو جاتا ہوں ۔ میں نے بیڈ روم، ڈرائنگ روم، گیسٹ روم وغیرہ کے جھنجھٹ نہیں پالے۔ میں نے پوچھا، اہل خانہ کہاں ہیں ؟ فرمایا، شیخوپورہ میں ہیں ۔ میں نے پوچھا: کب واپس آئیں گے؟ بولے: وہ تو مستقل وہیں رہتے ہیں ۔ کیونکہ میں مکان اور مکین شفٹ کرنے کا قائل نہیں ہوں، اس میں بڑی اُلجھن ہوتی ہے۔ میں بیوی بچوں کو