کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 90
قربتیں بڑھتی ہی رہیں اور من تو شدم تو من شدی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حتیٰ کہ اس کا وقت اَجل آن پہنچا۔
ان کو کتابوں سے محبت نہیں تھی بلکہ عشق تھا اور اس عشق نے جنون کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ایسا جنون جس میں انسان پتھر کھا کر بھی لذت لیتا ہے اور اگر کوئی پتھر نہ مارے تو بدمزہ ہوتا ہے :
میرے جنوں کا تیرے شہر میں گزارا نہیں مجھے تو ایک بھی پتھر کسی نے مارا نہیں
کتابوں کا جنوں اُنہیں اس وادی میں لے گیا جہاں ہر طرف سے پتھر ہی برستے ہیں ۔ اس کے دوست بھی کہتے: شاکر اتنی کتابیں کیا کرو گے، پاگل ہو گئے ہو۔ اس بات کے جواب میں ان کے پاس بس ایک زوردار قہقہہ ہوتا تھا۔ جسے سنتے ہی مخاطب کی پیشانی عرق آلود ہوتی اور زبان خاموش ہو جاتی۔
ان کے ایک مداح نے کتاب لکھی، جس میں ان کے بارے میں کچھ چبھتی باتیں لکھیں ۔ شاکر نے گلہ تو کیا جواب دینا بھی پسند نہ کیا۔ وہ راضی برضاے الٰہی رہا کرتا۔ بس ایک ہی شوق تھا، اچھی سے اچھی کتاب ذاتی کتب خانہ کی زینت بنے۔ اس ذوق کی تسکین کے لیے مالی وسائل پانی کی طرح بہانے سے بھی دریغ نہ کرتا۔
…………٭ …………
کتابوں کا شوق ان کو زمانۂ طالب علمی ہی سے پیدا ہو چکا تھا۔ گھر سے پیسے تو ان کو بھی ہماری طرح تھوڑے ہی ملتے تھے لیکن وہ اپنے بیشتر پیسے کتابوں کے خریدنے پر خرچ کرتے تھے۔ اَنار کلی چوک میں فٹ پاتھ پر رکھی کتابیں ان کی منتظر رہتی تھیں ۔ کتاب کے معاملے میں ان کی نگاہیں ہمیشہ عقابی ہوتیں۔ بازار چلتے ہوئے بھی ان کی نگاہ فٹ پاتھ پر بکھری کتابوں پر ہوتی تھی اور چلتے چلتے ایک دم کسی طرف لپکتے۔ پتہ چلتا کہ کتاب پر نظر پڑ گئی۔ بس خرید لائے اور ایسی خوشی کا اظہار کرتے کہ اس خوشی کے اظہار کا صحیح بیان ممکن نہیں ۔
ان کی کتابوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ ہر ملنے والے کو اپنی کتابوں کی تعداد سے مطلع کرتے اور ایسے خوش ہوتے جس طرح بچہ کھلونا لے کر خوش ہوتا ہے۔ فارسی کا مقولہ ہے: کسب ِکمال کن عزیز جہاں شوی۔