کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 89
یادِ رفتگاں پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر عبد الجبار شاکر کتاب شناس و کتاب دوست لیجئے نوشتہ تقدیر پھر غالب آیا۔ ایک کتاب شناس اور کتاب دوست دنیا سے رخصت ہوا۔ وہی جس کا نام ’عبدالجبار شاکر‘ تھا۔ جو واقعی جبار کا بندہ اور جبار کی مشیت پر شاکر رہنے والا اور رضیتُ باﷲ ربًّا و بالإسلام دینًاکا آئینہ دار تھا۔ اسم بامسمّٰی … اس کی صفت شاکر تھی۔ آج کون ہے جس کی زبان پر مالی عسرت کا گلہ اور مہنگائی کی بات نہ ہو لیکن عبدالجبار شاکر کے شناسا سب شاہد ہیں کہ اس کے لب اس بارے میں گنگ تھے۔ کبھی مالی شکوہ شکایت کی بات نہ کی، اگر کسی نے خود بات کی تو طرح دے گئے۔ میں نے ان کی جوانی بھی دیکھی اور بڑھاپا بھی۔ لیکن دونوں حالتوں میں ان کو جوان نہیں بلکہ نوجوان پایا۔ اس لیے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ جوانی ہی میں چلے گئے۔ بالوں کی سفیدی بڑھاپے کی علامت ہے لیکن ضروری نہیں کہ بال سفید ہو جائیں تو بڑھاپا آ ہی جائے۔ اُنہوں نے خود کو کبھی بوڑھا نہ سمجھا، نہ ہی دیکھنے والوں نے ان کو بوڑھا پایا۔مقصد کی لگن، ہدف کا حصول ان کی زندگی کا اُصول تھا : تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی میرا وہ دوست تھا، آج کا نہیں تقریباً نصف صدی قبل کا۔ شناسائی ۱۹۶۷ء میں ہوئی، جب میں نے اور اس نے اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ہمیں قیام کے لیے وولنر ہاسٹل کا ایک ہی کمرہ الاٹ ہوا۔ ہم دونوں اورینٹل کالج کے طالب علم تھے لیکن وہ اُردو میں تھا، میں عربی میں ۔ پہلی ملاقات میں دل نے کہا: کٹھ ملا ّ ہے، اتنی لمبی داڑھی، لیکن اس نے جس اپنائیت سے گفتگو کی،دل نے خیال جھٹک دیا۔ فکری ہم آہنگی نے فاصلے اور بھی کم کر دیئے۔ اس کے بعد