کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 87
کتابوں کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور دورانِ مطالعہ اہمیت کی حامل چیزوں کو اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ مذکورہ بستی سے آپ کی اس قدر محبت تھی کہ تاوفات آپ نے اس کو نہیں بھلایا۔ اس بستی کے بعض غریب بھائیوں کی آپ نے مالی اعانت بھی کی۔
۲۰۰۰ء میں آپ نے اُستاذ محترم شیخ احمد مجتبیٰ مدنی حفظہ اللہ کی رفاقت میں اس بستی کی زیارت کی۔ پرانے دوستوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل کو سنا۔ آپ نے مکمل ایک ہفتہ قیام کیا اور كلية التربية السلفية مدھوپور، جامعہ رحمانیہ مدھوپور، مدرسہ فیض عام چھاتا پتھر، جامعہ محمدیہ ڈابھا کیند اور مدرسہ دار الفلاح، عابد نگر ٹر منڈا اور ٹو پاٹانڑ کی زیارت فرمائی۔ ہر ایک ادارہ کے لئے آپ نے تاثرات لکھے اور اساتذہ ومنتظمین کو نیک مشورے دیئے۔ جامعہ محمدیہ ڈابھا کیند کے صحن میں ایک عام جلسہ کا انعقاد کرا کے علاقے کے لوگوں کو عام خطاب بھی فرمایا۔ عیدگاہ جامع مسجد اہل حدیث پتھر چیٹی مدھوپور میں جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ جامعہ رحمانیہ مدھوپور اور كلية التربية میں طلبا وطالبات کو قیمتی نصیحتیں فرمائیں ۔ جب آپ اس سفر سے واپس ہونے لگے تو لوگوں سے کتاب وسنت پر قائم رہنے، ملی وجماعتی خدمات انجام دینے اور تعلیم و تربیت کو ہمیشہ زندہ رکھنے کا وعدہ لیا۔
علم ودعوت کا یہ عظیم سپوت اچانک ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔وفات سے ایک ہفتہ قبل آپ کو کمر سے لے کر قدموں تک شدید درد کا احساس ہوا۔ آپ دہلی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کئے گئے۔ ماہر ترین ڈاکٹروں کے علاج کے باوجود آپ کی بیماری بڑھتی گئی۔ شاید آپ کی وفات کا وقت اور ربّ کا بلاوا آچکا تھا۔ ۲۹/ اکتوبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بوقت ۵/بجے شام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، اور صاف بتا دیا کہ اب آپ صرف پانچ چھ گھنٹے تک ہی باحیات رہ سکیں گے۔ آپ کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان احمد (پروفیسر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) اور دیگر رشتہ دار آپ کے ساتھ تھے۔ سب لوگوں نے آپ کو جلد از جلد وطن عزیز مؤ پہنچانا مناسب سمجھا۔ آپ بذریعہ ایمبولینس گھر لائے جا رہے تھے کہ کانپور میں ۵/ بجے صبح بتاریخ ۳۰/ اکتوبر ۲۰۰۹ء بروز جمعہ ستر سال، دو مہینہ بائیس دن کی عمر پا کر وفات کر گئے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون!