کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 85
عظمت ِرفتہ وغیرہ کتابیں بے حد مشہور و متداول اور مقبولِ خا ص و عام ہیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تلخیص اردو زبان میں ’معارفِ ابن تیمیہ‘ کے نام سے اور تحریک ِ شہیدین کے جہود و مساعی کو سلفی نقطہ نظر سے عربی زبان میں ہدیۂ قارئین کریں مگر آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وقت ِموعود آگیا۔
ہندوستان کے دینی و تعلیمی اداروں سے آپ کے تعلقات بڑے گہرے تھے۔ جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینۃ السلام، بہار جو سرزمینِ ہند کا ایک عظیم ادارہ ہے۔ اس کو دیکھنے اور اس کے اساتذہ و طلبہ اور معلّمات و طالبات سے ملنے، ان کو کچھ کہنے اور سننے کی شدید خواہش آپ کے اندر موجزن تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کی تکمیل بھی فرمائی اور جامعہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے المعہد العالي للتخصص في التدریس والتربيةکے افتتاحی پروگرام میں آپ بحیثیت ِمہمانِ خصوصی مدعو کئے گئے۔ یہ پروگرام ۳۱/ جنوری ۲۰۰۹ء کو منعقد ہوا تھا اور آپ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (مؤسس و رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ) اور شیخ حفیظ الرحمن اعظمی (اُستاذ جامعہ دارالسلام، عمر آباد) کے مبارک ہاتھوں سے المعہد العالي للتخصص في التدریس والتربية کا افتتاح عمل میں آیا تھا۔ اس علمی و فکری ادارہ کو آپ جیسے تجربہ کار اور ماہرینِ فن اہل علم کے اِشراف و نگرانی کی ضرورت تھی۔ آپ سے یہ درخواست کی گئی تو آپ نے پورے شرحِ صدر کے ساتھ نہ صرف اس کو قبول کیا، بلکہ اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔
آپ نے اس موقع پر علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی خدمات و مساعی کو خوب سراہا۔ اس علم و فن کی بستی کو دیکھ کر بڑی مسرت و شادمانی کا اظہار کیا اورنیک دعائیں دیں ۔ یہاں کی جملہ نشاطات و سرگرمیوں کا معائنہ کرنے اور ان کے پیچھے علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ کی کارفرما محنتوں اور کاوشوں سے متاثر ہوکر جامعہ کے حق میں آپ نے دو صفحات پر مشتمل جو تاثرات عربی میں تحریر کئے، وہ اس ادارہ کے تئیں آپ کے نیک جذبات کے آئینہ دار ہیں ۔
آپ نے لکھا کہ
’’۳۱/ جنوری ۲۰۰۹ء کو جامعہ امام ابن تیمیہ، مدینۃ السلام میں المعہد العالي