کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 84
ہونے والے مقالات و انٹرویوز ان کے علاوہ ہیں ۔ اہل حدیث مکتبہ ’الفہیم‘ مؤ نے آپ کے جملہ مقالات و مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی پیش کش کی تھی۔ آپ نے اس دعوت کو قبول بھی کرلیا تھا اور عربی و اُردو کے مضامین کو ترتیب دینے کا سلسلہ شروع کردیا تھا، مگر شاید یہ کام آپ کی ذات سے لینا اللہ کو منظور نہ تھا کہ کام انجام پانے سے قبل ہی آپ کی وفات ہوگئی۔
آپ نے پوری زندگی جامعہ سلفیہ بنارس کے شعبۂ تالیف و ترجمہ: إدارۃ البحوث الإسلامية کے ڈائریکٹر کافریضہ انجام دیا۔ اس شعبہ سے شائع ہونے والی علمی و فکری، دعوتی و تحقیقی اور درسی و دعوتی کتابیں آپ کے عمدہ ذوق کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کتابوں میں ’عرضِ ناشر‘ کے عنوان سے شائع شدہ آپ کی عربی و اُردو فکری تحریریں زبان و اَدب اور علم و فن کی شاہکار ہیں ۔ برصغیر ہند کے مختلف مکتبات بعض کتابوں میں آپ سے ’تاثرات‘ اور ’تقدیمات‘ لکھواتے تھے۔ ابھی مکتبہ الفہیم مؤ سے علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ (گوجرانوالہ) کی مایہ ناز کتاب ’تحریک ِآزادیٔ فکر اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تجدیدی مساعی‘ چھپنے جارہی ہے۔ اس کتاب کا آپ نے گراں قدر مقدمہ پچپن صفحات پر مشتمل قلم بند فرمایا ہے۔ آپ جب دہلی اسپتال میں زیر علاج تھے تو آپ کی خواہش تھی کہ اگر یہ کتاب چھپ گئی ہو تو اس کا ایک نسخہ اسپتال پہنچایا جائے۔ کتاب کے نہ چھپنے کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ کی جاسکی۔
عربی زبان و اَدب پر آپ کے کامل عبور نے ۱۹۹۲ء میں آپ کو ’صدرِ جمہوریہ ایوارڈ‘ کا مستحق بنایا اور تاریخ ادبِ عربی (۵ جلدوں میں ) عربی زبان و ادب کی تاریخ پر ایک شاہکار تصنیف قرار دی گئی۔ آپ کے تراجم و تصانیف میں
رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم، قرۃ العینین في تفضیل الشیخین، مسئلة حیاۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حركة الإنطلاق الفکري، حقيقة الأدب و وظیفتہ في ضوء تصریحات الأدباء والنقاد، مشكلة المسجد البابري، الإسلام تشکیل جدید للحضارۃ، خاتونِ اسلام، راہِ حق کے تقاضے، رسالت کے سائے میں، آپ بیتی،