کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 83
و دانشوران کو اپنے اپنے مذہب و دھرم کی نمائندگی کی دعوت دی جاتی ہے۔ آپ نے ہمیشہ ان پروگراموں میں اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی اور مقالات پڑھے۔ عصری یونیورسٹیوں کی جانب سے بھی منعقد ہونے والے متعدد پروگراموں میں آپ کو دعوت ملتی رہتی اور آپ نے ان میں اپنی شرکت کو یقینی بنا کر جامعہ سلفیہ کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ اہل علم و عوام کی دنیا کو اپنی آرا و تجاویز سے مستفید کیا۔ جامعہ سلفیہ، بنارس کی مسند ِتدریس پر آپ ابتدا سے تا وفات فائز رہے۔ آپ نے ہم لوگوں کو عربی اَدب، تاریخ ادبِ عربی اور تفسیر بیضاوی پڑھائی۔ آپ گونا گوں علمی، ملی و انتظامی اُمور کے ہجوم کو سنبھالنے کے باوجود ایک فرض شناس مدرّس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ وقت پر کلاس میں موجود ہوجاتے اور گھنٹی کا پورا وقت افادہ و تدریس میں صرف کرتے۔ جب آپ کا بیرونِ ملک کا کوئی علمی و دعوتی سفر ہوتا تو قبل از سفر خارجی اوقات (بعد نمازِ مغرب) میں ان اسباق کو پڑھا دیتے جن کے دورانِ سفر چھوٹ جانے کا ان کو اندازہ ہوتا تاکہ طلبہ کا کسی بھی طور پر علمی نقصان نہ ہو۔ طلبہ کی کردار سازی اور ان کی ذہنی و فکری تربیت آپ کا محبوب مشغلہ ہوا کرتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ کاموں کے انبار ہونے کے باوجود ندوۃ الطلبة کے تحت منعقد ہونے والے ہفتہ واری تقریری پروگراموں کی آپ برابر صدارت کرتے اور توجیہات و نصائح مفیدہ سے طلبہ کو نوازتے تھے۔ آپ کے ہزاروں شاگردان ملک وبیرونِ ملک میں میدانِ دعوت و تصنیف، تالیف و ترجمہ اور درس و تدریس کے اونچے مقام پر فائز ہیں اور بعض بڑے تعلیمی و دعوتی، تصنیفی و تالیفی اور رفاہی ادارے چلا رہے ہیں ۔ ان سب کے پیچھے دیگر اساتذہ کے بشمول آپ کی توجیہات کا اثر کارفرما رہا ہے۔ تصنیف و تالیف، تعریب و ترجمہ اور انشا پردازی و مضمون نگاری آپ کا خاص میدان تھا۔ اس میدان کو آپ نے تشنہ نہیں چھوڑا۔ عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں آپ کی تین درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ صوت الأمة (عربی مجلہ) کے اداریے، ماہنامہ ’محدث‘ بنارس میں شائع شدہ مضامین اور ملک و بیرونِ ملک کے دیگر رسائل اور مجلات میں شائع