کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 81
حدیثوں کا عربی نقیب و ترجمان ماہنامہ صوت الجامعة السلفية (موجودہ صوت الأمة) جاری ہوا۔ اس کے اجرا کے اوّل دن سے ہی آپ اس کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ آپ کی اِدارت میں نکلنے والا یہ مجلہ روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا اور کبھی بھی بند نہ ہوا۔ آپ نے ہر شمارہ میں خوب لکھا۔ آپ کی تحریروں کی ملک و بیرونِ ملک میں ایک خاص شناخت بن گئی۔ آپ نے فکری مضامین اور اداریے لکھے، مگر منہج سلف سے موئے سر کے برابر بھی انحراف گوارا نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں کی بڑی شہرت ہوئی، علمی و ادبی حلقوں نے اُنہیں کافی سراہا اور دلچسپی سے پڑھا۔ آپ کی تحریروں میں چاشنی اور قاری و سامع کے احساسات و جذبات کو متاثر کرنے کا وصف نمایاں ہوتا۔ آپ کی ایک تحریر کی سرخی
زیارۃ أغضبت المتوھّمین و دولة أذلت المسالمین
جسے امریکہ سے واپسی پر آپ نے سپردِ قلم کیا تھا، کی حلاوت و شیرینی سے آج بھی زبانیں تر ہیں ۔
تصنیف و تالیف اور دینی علوم کی اشاعت و تعمیم کے لئے آپ نے عربی زبان کے علاوہ اُردو زبان کوبھی منتخب کیا اور اُردو ادب میں بھی آپ نے اپنی شناخت قائم کی۔ اُردو ماہنامہ ’محدث‘ بنارس کو ہمیشہ آپ نے اپنی گراں قدر اُردو تحریروں سے مزین کیا۔ روزنامہ اُردو اخبار ’آوازِ ملک‘ بنارس میں برابر لکھا، نیز ملک کے بہت سارے مجلات و جرائد میں آپ کے گراں قدر علمی و فکری مقالات و مضامین شائع ہوتے رہے۔
۱۹۸۷ء میں جامعہ سلفیہ بنارس کی مجلس عاملہ نے آپ کو ’وکیل الجامعہ‘ (ریکٹر) کا باوقار عہدہ تفویض کیا۔ اس وقت سے آپ نے وفات تک ملک و بیرونِ ملک میں جامعہ سلفیہ کی مکمل و کامیاب نمائندگی کی۔ اپنے علم وقلم سے جامعہ کا خوب خوب تعارف کرایا او رجامعہ کی تعمیر و ترقی کی راہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اس عہدہ پر رہتے ہوئے اُنہوں نے عرب ممالک کے اُمرا و حکما اور علما کے نام جو خطوط لکھے ہیں، ان کو کتابی شکل میں ترتیب دیا جائے تو کئی جلدوں میں علم و ادب کا بہترین ذخیرہ بن جائے گا۔ ۲/جولائی ۲۰۰۶ء کو آپ رئیس الجامعہ