کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 80
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۶۳ء میں دنیا کی مشہور و معروف یونیورسٹی ’جامعہ ازہر‘ مصر کے تعلیمی وظیفہ پر قاہرہ چلے گئے اور وہاں اُصول الدین فیکلٹی میں داخلہ لے کر ماجستیر (ایم اے) کیا۔ جامعہ ازہر سے فراغت کے بعد قاہرہ ریڈیو کے شعبۂ اُردو میں دو سال تک مترجم اور اناؤنسر کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۷ء میں آپ ہندوستان واپس آگئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ جماعت اہل حدیث کے مخلص اکابر علماء کے ہاتھوں مرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ، بنارس کی ابھی ابھی بنیاد رکھی گئی تھی، اور اس کے لئے لائق و فائق اساتذہ کی تلاش و جستجو جاری تھی۔ اس نوخیز ادارہ کے ذمہ داروں نے اس گوہر نایاب کو پہچان لیا اور آپ کی خدمات حاصل کرلیں ۔ اب آپ جامعہ سلفیہ بنارس کی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں سے منسلک گئے۔ کچھ دنوں کے بعد جامعہ سلفیہ بنارس میں ملازمت اور تدریسی فریضہ انجام دینے کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے شعبۂ عربی میں ریسرچ کے لئے داخلہ لیا اور ۱۹۷۲ء میں ایم فل کیا، پھر ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات سے کسب ِفیض کرنے کے بعد آپ نے اپنے آپ کو مکمل طور سے جامعہ سلفیہ بنارس کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور انتظامی ذمہ داریوں کے حوالہ کردیا۔ جب کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلینے کے بعد مختلف سرکاری و غیر سرکاری، ملکی و غیر ملکی اداروں میں اعلیٰ و اونچے مناصب کے لئے آپ کو دعوت دی جا رہی تھی، مگر آپ نے مادیت پرستی کی بجائے دین اور اس کی خدمت کو ترجیح دی۔ میدانِ دعوت و عمل اور تدریس و تربیت میں قدم رکھنے کے بعد ابھی کچھ ہی ایام گزرے تھے کہ آپ نے علمی، دینی اور ادبی حلقوں میں اپنی ایک خاص پہچان اور ممتاز شناخت بنا لی۔ آپ کی اعلیٰ علمی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں اور آپ مقبولِ خاص و عام ہونے لگے: یغوص البحر من طلب اللآلي ویحظی بالسیادۃ و النوالي ۱۹۶۹ء کا سال سلفیانِ ہند کے لئے بڑا قابل فخر زمانہ گزرا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ اہل