کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 79
جناب محمد یاسین رحمۃ اللہ علیہ اہل علم کی خدمت کو اپنے لیے باعث ِسعادت سمجھتے تھے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سر زمینِ مؤمیں منعقدہ ’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ میں شرکت کے لئے مؤ اسٹیشن اُترے تو ہاتھ سے کھینچے جانے والے ٹھیلے پر اُن کو بٹھا کر اُنہوں نے اور مولانا مختار احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے والد نے جلسہ گاہ تک پہنچایا تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم جامعہ عالیہ عربیہ، مؤ میں ہوئی۔ آپ نے خود لکھا ہے کہ ’’ جامعہ عالیہ عربیہ میرا مادر علمی ہے۔ میری تعلیمی زندگی کی بسم اللہ یہیں ہوئی ہے۔ قرآنِ کریم ناظرہ پڑھنے کے بعد میں نے حفظ ِقرآن یہیں شروع کیا تھا، لیکن اس کا اختتام کہیں اور ہوا، پھر میں نے فارسی کا مقررہ نصاب اور عربی کے چار درجات اِسی ادارہ میں مکمل کئے۔ بلاد بہا نیطت علی تمائمي وأول أرض مس جلدي ترابہا (عالیہ جنتری ۱۰، ۲۰۰۹ء/ ۱۲) جامعہ اثر یہ دار الحدیث، مؤ اور جامعہ اسلامیہ فیض عام، مؤ میں بھی آپ نے تعلیم پائی، البتہ فراغت کی سند آپ نے جامعہ اسلامیہ فیض عام سے ۱۹۶۰ء میں حاصل کی ۔ الٰہ آبادی (یو پی) بورڈ سے آپ نے مولوی، عالم اور فاضل کے امتحانات اچھے نمبروں سے پاس کئے۔ آپ ایک ذہین وفطین، لائق و ہونہار طالب ِ علم تھے۔ علمی و ادبی ذوق سے بھی سرفراز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ طالب علمی میں آپ اپنے اساتذہ کے محبوب ومنظورِ نظر رہے۔ جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ سے فراغت کے بعد جامعہ کے ذمہ داروں نے آپ کی اعلیٰ علمی صلاحیتوں کو بھانپ کر آپ کو جامعہ کی تدریسی کونسل میں شامل کر لیا۔ دو سال تک آپ پوری محنت ولگن سے تدریسی فریضہ انجام دیتے رہے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ تعالی نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ آپ آگے چل کر علوم و فنون، عربی زبان و ادب، کتاب سنت، جماعت وجمعیت اور اقوام وملت کی گراں قدر خدمات انجام دینے والے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مزید تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار کردی۔ آپ اس زرّیں موقع