کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 78
یادِ رفتگاں اِشفاق سجاد سلفی
ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری ؛ جوارِ رحمت میں
صحافت وخطابت کے عظیم شہسوار، مایہ ناز مدبر وحکیم، ملت ِاسلامیہ ہند کے مخلص قائد اور بے باک وباعزم مردِ میداں، جامعہ سلفیہ بنارس کے رئیس، اُستاذ الاساتذہ علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہزاروں سوگواروں کو چھوڑ کر اپنے مولاے حقیقی سے جا ملے۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون! ۳۰/ اکتوبر ۲۰۰۹ء بروز جمعرات بوقت ۵ بجے صبح آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی ہند و بیرونِ ہند میں شدید رنج وغم کی لہر دوڑ گئی۔اللہ تعالیٰ آپ کی دینی وعلمی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!
ذیل میں آپ کی سوانح حیات اور کارہاے نمایاں کا ایک مختصر تذکرہ ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔ اِدارہ
آنکھیں ہیں آج اُن کے تصور میں اشک بار، جن کے وجود سے یہ فضا مشک بار تھی ۔ماہر اسماء الرجال، فقیہ ِہند علامہ محمد رئیس ندوی رحمہ اللہ کی وفات اور جدائی کا غم ا بھی ہلکا بھی نہ ہوا تھا کہ اُستاذِ محترم ادیب ِزماں، فخر جماعت، نازشِ سلفیت، مفکر ِملت ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری (رئیس جامعہ سلفیہ بنارس) رحمہ اللہ اپنے ہزاروں روحانی بیٹوں، شاگردوں اور محبین ومعتقدین کو سوگوار چھوڑ کر عالم بقا کو کوچ کر گئے ۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون!
ان کے شاگردوں اور محبان میں سے کس کو کتنا غم ہوا ہو گا، اس کی پیمائش تو نہیں کی جاسکتی، البتہ ان کی وفات پر اخباروں میں جو خبریں شائع ہو رہی ہیں، ان سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرد سے لے کر جماعت تک، شاگرد سے لے کر اساتذہ تک اور معاصرین سے لے کر معتقدین تک ہر ایک کو آپ کی وفات پر سنگین زیادہ غم لاحق ہوا ہے۔
موت اُس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
اُستاذِ محترم ازہری صاحب ر حمہ اللہ کا تعلق علم وفن اور صنعت وحرفت کے معروف ومشہور شہر مؤ ناتھ بھنجن سے تھا۔ آپ کی ولادت ۸/ اگست ۱۹۳۹ء کو ہوئی۔ آپ کا خاندان شروع سے علم وفضل، زہد ووَرع اور خلوص و للہیت میں مشہور و معروف رہا ہے۔ آپ کے والد محترم