کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 77
کہ نئی اصطلاح وضع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔ لیکن بغیر کسی وجہ و ضرورت کے نئی نئی اصطلاحات کا استعمال انتشارِ ذہنی کا باعث بن سکتا ہے۔ لہٰذا جب توحید حاکمیت ‘ توحید ِاُلوہیت یا ربوبیت میں شامل ہے اور ان کا ایک جزو ہے تو اس کو علیحدہ بیان کرنے کی بجائے انہی دو اقسام کے ذیل میں بیان کرنا چاہیے جیسا کہ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے۔ پس علیحدہ سے توحید ِحاکمیت کی اصطلاح کا استعمال غیر ضروری اور درست نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص مجرداس کو بطورِ اصطلاح استعمال کر ے تواس پر بدعتی یا گمراہ ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ شیخ عبد اللہ الغُنیمان فرماتے ہیں :
’’وجعلہ قسم رابعًا لیس لہ وجہ، لأنہ داخل في الأقسام الثلاثة، والتقسیم بلا مقتضٰی یکون زیادۃ کلام لا داعي لہ، و الأمر سھل فیہ علی کل حال، إذ جعل قسمًا مستقلاً فھو مرادف، و لا محذور فیہ‘‘
http://islamqa.com/ar/ref/11745
’’اور توحید حاکمیت کو چوتھی قسم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ پہلی تین اقسام میں داخل ہے۔ بغیر ضرورت کے کوئی تقسیم کرنا زیادتی کلام ہے جس کی وجہ یہاں موجود نہیں ہے۔ بہر حال معاملہ آسان ہی ہے۔اگر کسی نے چوتھی قسم بنا بھی لی تو یہ ایک مترادف اصطلاح ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘‘
لیکن اگر کوئی شخص توحید ِحاکمیت کی اصطلاح کو ایسے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے کہ اس سے کئی ایک مزید بدعتی افکار جنم لیتے ہوں یاتوحید کا صحیح تصور مسخ ہو رہا ہو یا توحید کی اقسام کی مساوی اہمیت میں عدمِ توازن پیدا کیا جا رہا ہو یا دین کے کسی شعبے میں اس اصطلاح کے ذریعے غلو پیدا کیا جا رہا ہو تو ایسے حالات میں توحید کے صحیح تصور کی حفاظت کی خاطر بلاشبہ اس اصطلاح کے استعمال سے روکا جائے گااور اس کو استعمال کرنے والوں پر بدعتی یا گمراہ کا فتوی لگانا جائز ہو گاجیسا کہ شیخ صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ،علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ کا موقف ہے۔ سلفی علما کے دو مختلف موقفوں میں ہمیں تطبیق کی یہی صورت نظر آتی ہے۔ واللہ اعلم
توحید ِحاکمیت کی بنیاد پر مسلمان حکمرانوں کی تکفیر کے بارے میں سلفی علما کا موقف اور ان کے اَقوال کی تفصیل کسی مستقل مضمون میں پیش کی جائے گی۔ اِن شاء اللہ