کتاب: محدث شمارہ 333 - صفحہ 74
یہ بیان کرتا ہو کہ اس سے مراد یہ ہے کہ حاکمیت اللہ کے علاوہ کسی کی نہیں ہے؟ جواب: ما شاء اللہ! یہ کلمہ توحید’ لا اِلہ الا اللہ‘ کا ایک جزبلکہ بہت ہی قلیل جزہے۔ اس تفسیر کے ذریعے کلمہ توحید کے اصل مقصود کو چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ ہے توحید اور عبادت۔ ’لا الہ الا اللہ‘ کا معنی ہے کوئی حقیقی معبود اللہ کے سوا نہیں ہے۔ یہ تصور شرک کی نفی بھی کرتا ہے اور توحید کو ثابت بھی کرتا ہے۔ حاکمیت ’ لاالہ الا اللہ‘ کا ایک جز ہے جبکہ اس کلمے کی اصل توحید ہے۔ ’لا الہ الا اللہ‘ میں اصل مفہوم توحید کا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور نہیں اُنہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ وہ ایک ہی معبود کی عبادت کریں ۔ اسی طرح ارشاد ہے: اور اُنہیں نہیں حکم دیا گیا مگر اس کا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس کے لیے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے۔ اسی طرح ارشاد ہے: اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ ’لا الہ الا اللہ‘ کی حاکمیت کے ذریعے تفسیرکرنا در حقیقت ان لوگوں کا فتنہ ہے جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ۔ یا تو یہ لوگ جاہل ہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی تفسیر کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اس کا علم نہیں ہے۔ یہ لوگ در حقیقت تہذیب و کلچر کے میدان کے لوگ ہیں اور ’مفکرین‘ کہلاتے ہیں لیکن ان کے پاس اللہ کے دین کی سوجھ بوجھ موجود نہیں ہے۔ جبکہ اللہ کے دین کی سوجھ بوجھ نہ ہونا ایک آفت ہے…بہر حال یہ ایک بہت ہی ناقص تفسیر ہے۔ اگر اللہ کی حاکمیت قائم کر بھی دی جائے تو پھر بھی یہ تفسیر بے فائدہ ہو گی۔ اگر عدالتیں لوگوں کے مابین جھگڑوں، حدود و عزت کے مسائل میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنے بھی لگ جائیں اور حال یہ ہو کہ معاشرے میں شرک موجود ہو، مزار قائم ہوں تو یہ توحید حاکمیت کوئی فائدہ نہ دے گی اور لوگ اس توحید کی وجہ سے مسلمان نہیں ہو جائیں گے جب تک کہ وہ شرک کی جڑ نہ کاٹ دیں اور بتوں کو گرا دیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کا حکم دینے سے پہلے اپنی دعوت کا آغاز بتوں کو گرانے سے کیا۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال مکہ میں قیام کیا۔ اس دوران آپ توحید کا حکم دیتے تھے اور شرک سے روکتے تھے یہاں تک کہ جب عقیدہ درست و صحیح ہو گیااور مسلمانوں میں جہاد کے حکم پر آپ کی مدد کرنے والے میسر آ گئے تو نماز، روزہ، حج اور بقیہ شریعت نازل ہونا شروع ہوئی۔عمارت اپنی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ پہلے بنیاد کو پکڑیں پھر عمارت تعمیر کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ ’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ کی گواہی دینا اسلام کا پہلا رکن ہے۔ ا